جنوبی اسرائیل کے پچانونے فیصد یہودی آباد کاروں نے فلسطینی مزاحمت کاروں کی جانب سے داغے جانے والے راکٹ اور میزائیلوں کیوجہ سے ایسے رہائشی فلیٹ خریدنے سے انکار کردیا ہے کہ جن میں میزائیلوں سے تحفظ کے لئے محفوظ مورچے نہیں ہیں۔
اس امر کا انکشاف اسرائیلی روزنامے "معاریف” نے پراپرٹی ڈیلروں کی جانب سے کرائے جانے والے سروے کے نتائج کے حوالے سے اپنی حالیہ اشاعت میں کیا ہے۔ اخبار کے مطابق فلسطینی مزاحمت کاروں کے میزائیلوں کی رینج سے باہر وسطی اسرائیل میں رہنے والے یہودی آبادکاروں کی ایک تہائی تعداد بغیر مورچوں کے مکانات خریدنے سے پہلے دو بار ضرور سوچتی ہے۔ سروے کے مطابق جن گھروں میں مورچے نہیں ہیں ان میں رہائش اختیار کرنے والی خواتین میں مردوں کی نسبت زیادہ خوف پایا جاتا ہے۔
"معاریف” کے مطابق اسرائیل میں سنہ 1992ء میں ایک قانون بنایا گیا تھا جس کے تحت اس امر کو لازمی قرار دیا گیا تھا کہ ہر گھر میں حفاظتی مورچہ بنایا جائے مگر یہ امر اپنی جگہ ایک مسلم حقیقت ہے کہ علاقے میں تقریبا چار لاکھ گھر ایسے ہیں کہ جو اس قانون کے اجراء سے پہلے تعمیر کئے گئے تھے، ایسے گھروں میں انفرادی مورچے نہ ہونے کے برابر ہیں۔ منصوبہ بندی کے تحت بننے والی کالونیوں میں ایسے حملوں سے بچنے کے لئے اجتماعی مورچے اور محفوظ مقامات موجود ہیں۔
صہیونی حکومت نےغزہ کی پٹی سے جنوب میں اسرائیلی یہودیوں بستیوں پر راکٹ فائرنگ کے اپنے "شہریوں” کو محفوظ رکھنے کے متعدد منصوبوں پر خطیر رقم خرچ کی مگر مزاحمت کاروں کے راکٹ اور میزائیلیوں کی بڑھتی ہوئی رینج کے سامنے یہ تمام اقدامات ناکافی ہوتے گئے۔