انہیں ایسا ہی سبق سکھائیں جیساکہ 2006ء میں دہشت گرد حزب اللہ کو سکھایاگیاتھا- غزہ کو حماس کے شکنجے سے چھڑالیں، یہ فلسطینی جہاں کہیں جاتے ہیں، وہ اپنے ساتھ دہشت گردی، مصیبت اور آفات ساتھ لے جاتے ہیں-
یہ الفاظ اسرائیلی پراپیگنڈہ کرنے والوں یا صہیونی معذرت خواہوں کے نہیں ہیں جو غزہ کی پٹی پر حالیہ یلغار کے دلائل گھڑتے ہیں یہ الفاظ ایک کویتی کالم نگار کے ہیں جس نے اپنی روح شیطان کو فروخت کردی ہے- میں نے اس کے لیے الفاظ استعمال کئے ہیں کیونکہ جب ایک انسان اپنے آپ کو شیطان کی خدمت کے لئے وقف کردیتا ہے، چاہے یہ کام جان بوجھ کر کر رہا ہو یا ان جانے بوجھے، وہ اپنی اخلاقیات سے اور نتیجتاً اپنے انسان ہونے سے بھی محروم ہوجاتا ہے-
مجھے یقینی طور پر معلوم نہیں ہے کہ وہ کون سے عوامل ہیں جن کی بناء پر لوگ اس قسم کی بے سروپا باتیں کرتے ہیں، اس کا سبب دماغی کمزوری بھی ہوسکتاہے، ایسا نفسیاتی نقص بھی ہوسکتا ہے جس پر قابو پانے میں وہ ناکام رہے ہوں یا ذہنی نقصان بھی ہوسکتاہے، تاہم ایسی بے تکی باتیں وہی لوگ ہانکتے ہیں کہ جو لوگ اخلاقی طور پر بھی تہی دامن ہوں اور اپنے ضمیر کو بھی ابدی نیند سلا چکے ہوں- یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ ایک عام شخص ایک قلم کار یا کوئی اور شخص جو بچوں کے قتل عام پر خوشی کا اظہار کرے، وہ حقیقتاً انسانیت کے مقام سے نیچے گرچکا ہے-
بد قسمتی کا مقام ہے کہ ایسے نام نہاد عرب قلم کار اور دانشور موجود ہیں جنہوں نے یہ اپنی زندگی بھر کی ذمہ داری یہ سمجھ لی ہے کہ حماس اور دیگر مزاحمتی جماعتوں کا راستہ روکا جائے اور ان کی کردار کشی کی جائے- ان کے نزدیک سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ صہیونیت کی چوکھٹ پر سجدہ ریز ہوا جائے جبکہ صہیونیت ایک ایسی نازی طرز کی تحریک ہے کہ جو فلسطینیوں کا قتل عام کررہی ہے، ان کے گھروں کو تباہ کررہی ہے-
ان کی زمینوں پر قبضے جما رہی ہے اور ان کو دنیا بھر میں منتشر کررہی ہے- انصاف کا علم اٹھانے اور ظالم کی مذمت کرنے کی بجائے، ظالم کا ساتھ دینے سے جیساکہ مذکورہ قلم کار کررہاہے، ان خون کے تاجروں نے فیصلہ کرلیا ہے کہ آج کے دور میں نازیوں کی حمایت حاصل کرلیں اور شاید اس طرح وہ چاہتے ہیں کہ عالمی صہیونی حلقے انہیں اس غداری پر انعام و اکرام سے نواز دیں گے-
جی ہاں، انہوں نے یہ بندوبست کرلیا ہے، اسرائیل کی وزارت خارجہ نے ’’اعزاز‘‘ کی ایسی فہرست تیار کی ہے، جس میں وہ عرب لکھاری شامل ہیں کہ جو اسرائیل کے لئے ’’شاندار خدمات‘‘ سرانجام دے رہے ہیں- آج کل کے یہودی ذرائع ابلاغ کو چھان پھٹک لیجئے اور دیکھیے کہ ان نامعقول غداروں کا حوالہ صہیونی قلم کار بھی دیتے ہیں- اسرائیلی وزارت داخلہ اور انٹیلی جنس کے افسران بھی اس سے واضح ہوجاتاہے کہ یہ چھوٹے چھوٹے انسان ہر اس خیال تصور اور طرز عمل کوہضم کرنے کے لئے تیار ہیں کہ جسے صہیونیوں نے ہاتھ لگا دیا ہو-
مجھے معلوم ہے کہ ان قلم کاروں کی اکثریت، حقائق سے بالکل ناواقف ہے ان میں ایسے قلم کار بھی ہیں جو حقائق کوخوب اچھی طرح جانتے ہیں لیکن ان کے اندر دانشورانہ سچائی اور اخلاقی بلندی نہیں ہے کہ وہ سچائی کے لئے اٹھ کھڑے ہوں- یہ کردار کی پستی ہے کہ وہ اس ادنی مقام تک پہنچ چکے ہیں- یہ منافق ہیں کہ جو دائیں او ربائیں کے درمیان جھولتے رہتے ہیں اور وہ اس کے حق میں رائے اختیار کرلیتے ہیں جس کے بارے میں ان کے آقا اور انہیں رقوم فراہم کرنے والے ہدایت دیتے ہیں-
چند سال پہلے کی بات ہے، انہی نام نہاد ’’قلم کاروں‘‘ میں سے ایک سے میری لندن میں ملاقات ہوئی جس کی تحریروں کے حوالے اکثر امریکی اور اسرائیلی میڈیا کے لوگ دیا کرتے تھے اس کی وجہ یہ تھی کہ اس کا کہنا تھا کہ ’’تمام مسلمان دہشت گرد نہیں ہیں بلکہ تمام دہشت گرد مسلمان ہیں-‘‘ مجھے نہیں معلوم کہ یہ نام نہاد قلم کار کیا کھا رہا تھا یا پی رہا تھا جب اس نے یہ جملے کہے، اس نے جس قسم کا رکیک حملہ کیا تھا اسے ذہنی پیچش کا نام دیا جاسکتاہے علمی سرگرمی کا نہیں-
کیا اس جھوٹے آدمی نے سعودی عرب کے سکول میں بچپن میں تعلیم حاصل کرتے ہوئے یہ نہیں سیکھا تھاکہ ’’گھر‘‘ خاندان اور عزت کی حفاظت تمام مسلمانوں پر فرض ہے- کیا وہ سمجھنے کے لئے تیار نہیں ہے کہ کسی دوسرے ملک پر قبضہ کرنا اس کی عصمت دری کے مترادف ہے اور جس طرح عصمت دری کاشکار بننے والوں کو حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ اپنے حقوق کے لئے حملہ آوروں کی مزاحمت بھی کریں، اسی طرح جیلوں میں رہنے والوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ قبضہ کرنے والوں، تسلط جمانے والوں اور تشدد کرنے والوں کی مزاحمت کریں، کیا اسی طرح کا حق ان لوگوں کو حاصل نہیں ہے جن پر دوسری قوموں نے غلامی نازل کردی ہے، ان پر تشدد کر رہے ہیں، ان کی عزتیں نیلام کررہے ہیں، کیا وہ یہ فراموش کرچکا ہے کہ امریکہ میں بھی جو اس کا اصل ’’دیوتا‘‘ہے بلکہ اس کے ’’دیوتا‘‘ کا ’’دیوتا‘‘ہے-
یہ بات عام ہے کہ ’’مجھے آزادی دو یا مجھے موت دو‘‘ کیا وہ کمزور دفاع نابکار قلم کار یہ حقیقت نہیں سمجھ سکا کہ دراندازی، قبضہ اور امریکہ کی جانب سے آزاد قوموں کی تباہی، لاکھوں لوگوں کا قتل، تشدد کی بدترین شکل ہے- مجھے معلوم ہے کہ بہت سے عرب حماس کو پسند نہیں کرتے اسی کی وجہ سے نظریاتی ’’عدم اتفاق‘‘ ہے- ممکن ہے ایسے عرب اور مسلم قلم کار موجود ہوں کہ جن کے نام عبداللہ یا عبدالرحمن ہوں اور جو اسرائیل پر دباؤ ڈالیں کہ فلسطینیوں کو نقشہ ارض سے مٹا ڈالیں اور اپنی اس خواہش کا اظہار کریں کہ کاش وہ اسرائیلی فوجی ہوتے اور فلسطینی و لبنانی بچوں کا قتل عام کرتے اخلاقی زوال، اس کی کوئی انتہا نہیں ہے-
مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ عربوں کی اکثریت ایسے مردوں اور عورتوں پر مشتمل ہے کہ جنہیں عزت نفس کا احساس ہے، ان کے دل اور دماغ ان کے فلسطینی بھائیوں اور بہنوں کے ساتھ دھڑکتے ہیں، جب اسرائیل نے غزہ پر جارحانہ فوجی کاروائی کاآغاز کیا تو موریطانیہ سے بحرین تک ہونے والے بڑے بڑے مظاہروں نے ثابت کردیا کہ وہ فلسطین پر غاصبانہ قبضے کے خلاف ہیں- اگرچہ ان کے حکمرانوں اور برسراقتدار طبقات کی رائے اس سے مختلف ہے-
حقیقت یہ ہے کہ فلسطینیوں کو اپنی جدوجہد میں یہی عوامی حمایت حاصل ہے جس کی بناء پر فلسطینیوں نے اس مشکل راستے کا انتخاب کیا چند ممالک میں ایسے بزعم خود ’’شیخ‘‘ بھی پائے گئے جنہوں نے فلسطینیوں پر ظلم و ستم ڈھانے والے اسرائیل کے خلاف مظاہروں کو ناجائز قراردیا- انہوں نے بڑی بے حمیتی سے دلیل دی کہ مظاہرے کرنا،مغرب کی نقل ہے اور مظاہروں کا اسلامی شریعت میں کوئی مقام نہیں ہے -یہ نادان کس شریعت کی بات کررہے ہیں کیا وہ اس حقیقت سے آگاہ نہیں ہیں کہ نبی نے اور آپ کے ساتھیوں نے مشرکین مکہ کے خلاف سب سے پہلے مظاہرہ کیا تھا اگر نام نہاد علماء ’’حلال وحرام‘‘ کے بارے میں اتنے ہی فکرمند ہیں تو پھر وہ اپنے ممالک میں ہونے والی ظلم وزیاتی کے خلاف آواز کیوں بلند نہیں کرتے-
وہ اپنے حکمرانوں کے صہیونی کنٹرول میں چلنے والے امریکہ کی تابعداری کے خلاف آواز بلند کیوں نہیں کرتے- کیا بے حیائی اور بے غیرتی پھیلانا اسلام سے متصادم نہیں ہے کیا اسرائیل کے سرپرست اعلی امریکہ
کی تابعداری اور شریعت کے قانون کے مطابق ہے-