پنج شنبه 01/می/2025

اسرائیلی حکام پر جنگی جرائم کا مقدمہ قائم کرنے کیلئے دباؤ

ہفتہ 14-فروری-2009

غزہ فلسطین پر اسرائیلی جارحیت کے بعد سعودی عرب اور فلاحی اداروں کی جانب سے امدادی کارروائی کا سلسلہ جاری ہے-
 
اس بار بھی سعودی عرب اور خلیجی ممالک میں غزہ پر اسرائیلی جارحیت موضوع بحث رہا اور ہر شعبہ زندگی میں اس حوالہ سے گفتگو جاری رہی اور جی سی سی (گلف کوآپریشن کونسل)، عرب لیگ، رابطہ عالم اسلامی، ورلڈ اسمبلی آف یوتھ مسلم، مجلس شوری، سعودی کابینہ اور امام حرمین شریفین کے خطبوں، پرنٹ میڈیا، الیکٹرانک میڈیا میں مسئلہ فلسطین اور غزہ پر اسرائیلی حملے کا بہت ذکر رہا اور اب عالم عرب میں اسرائیلی فوجیوں پر جنگی جرائم کے مقدمات قائم کرنے کے لیے دباؤ بڑھ رہا ہے-
 
فلسطین کی غزہ کی پٹی پر یہ حملے ہوئے کیوں؟ اس کی اصل وجہ مبصرین نے لکھی ہے کہ اسرائیل میں 10 فروری کو پارلیمنٹ کے عام انتخابات مقرر تھے- موجودہ اسرائیلی وزیر اعظم ایہود اولمرٹ ایک داغدار سیاسی لیڈر ہیں، ان کی پارٹی کی کارکردگی رسوا کن ہے، ان کی پارٹی کی طرف سے اعلان شدہ وزیر اعظم کے عہدہ کے لیے نئی امیدوار زیپی لیونی جو اس وقت وزیر خارجہ کی کرسی پر تعینات ہیں، اپنے مستقبل کے بارے میں بے یقینی کی کیفیت سے دوچار ہے-
 
ایسے میں برسراقتدار طبقہ کے سامنے الیکشن میں کامیابی حاصل کرنے کا سب سے آسان طریقہ پڑوسی ملک، علاقہ یا اتھارٹی کے خلاف اپنی جارحیت کا مظاہرہ کر کے فسطائی ذہنیت والے رائے دہندگان کی ہمدردیاں حاصل کرنا ہے- حماس اور اسرائیل کے درمیان 6 ماہ کی جنگ بندی 19 دسمبر کو مقررہ تاریخ پر ختم ہوگئی- حماس حریت پسند مسلم لیڈروں نے ان سے توقعات قائم کرلی تھیں کہ شاید امریکی صدر اپنے اس اعلان میں کہ وہ اپنی مدت صدارت ختم ہونے سے پہلے فلسطین اور اسرائیل کا مسئلہ حل کرادیں گے، 27 دسمبر کو اسرائیل کے جنگی جہازوں نے حماس کے دائرہ عمل والی غزہ کی پٹی میں جس پر اس نے فتح کے صدر محمود عباس کی غیر قانونی کارروائیوں اور امریکہ و اسرائیل کے اشاروں پر کی جانے والی مسلم و فلسطیبن مخالف حرکتوں کے مقابلے میں جون 2007ء میں اپنا کنٹرول قائم کرلیا تھا-

اس مرتبہ 23 روزہ اسرائیلی حملے میں غزہ پٹی میں ہونے والی اموات کی تعداد 1967ء کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے- حد یہ کہ اقوام متحدہ کے سکول پر بھی اسرائیلی حملے میں کم از کم تین افراد ہلاک اور 55 زخمی ہوگئے- اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے اس علاقہ کا دورہ کیا اور اپنی آنکھوں سے تباہی دیکھی اور اسے جنگی جرائم کے مترادف قرار دیا ہے-

1981ء میں شاہ فہد امن منصوبہ اور 2002ء میں عرب امن منصوبہ پیش کیا گیا جن میں بڑی شفاف تجاویز پیش کی گئی تھیں- ان دونوں منصوبوں کی تمام عرب اقوام نے توثیق کی تھی- عالم عرب قیام امن کی بہت بھاری قیمت اداکرنے پر بھی تیار ہے، وہ نہ صرف اسرائیل کو ایک قانونی ریاست کے طور پر تسلیم کرنے کے لیے تیار ہیں بلکہ تعلقات کو معمول پر لانے اور تمام عداوت، دشمنی کو ختم کردینا چاہتا ہے جو کہ 1948ء سے چل یآرہی ہے-
 
اس کے جواب میں ہم اسرائیل سے صرف یہ چاہتے تھے کہ وہ بھی عدل و انصاف کے راستے پر چلے جس کے لیے مختلف بین الاقوامی قراردادیں اور قوانین موجود ہیں- وہ مشرقی یروشلم سمیت تمام علاقے خالی کردے جن پر اس نے 1976ء میں قبضہ کیا تھا اور خود 4 جون 1967ء کی پوزیشنوں پر واپس چلا جائے- اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قرارداد نمبر 194 کے مطابق پناہ گزینوں کا حقیقی معنوں میں اپنا مقصد سمجھا جائے تو اسرائیل کو اپنی تمام اشتعال انگیز کارروائیاں بند کردینی چاہئیں یعنی فلسطینی اراضی پر نو آبادیاں قائم کرنا ترک کردے جو کہ بین الاقوامی قانون کی صریح خلاف ورزی ہے- 1993ء میں اوسلو معاہدہ عمل میں لایا گیا تھا جو فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے مابین پہلا براہ راست سمجھوتہ تھا جس سے صورتحال میں مثبت تبدیلی پیدا ہونے کی امید تھی لیکن 1995ء میں اسحاق رابن کے قتل نے امن کی اس امید پر پانی پھیر دیا- 1998ء تک یہ واضح ہوگیا کہ اوسلو میں امن کا جو خواب دیکھا گیا تھا اسے تعبیر نہ مل سکے گی-

2 سال قبل خادم الحرمین شریفین شاہ عبد اللہ بن عبد العزیز نے بھی فتح اور حماس کے دونوں راہنماؤں کو مکہ مکرمہ میں ایک میز پر بٹھایا اور ایک معاہدہ پر دستخط کیے اور فلسطین میں پائیدار امن کے قیام کے لیے دونوں پروگوں پر زور دیا گیا تھا لیکن فلسطینی راہنماؤں نے اسے نظر انداز کردیا- مکہ مکرمہ میں امام حرم و خطیب شیخ ڈاکٹر صالح بن حمید نے جمعہ کے خطبہ میں کہا کہ فرزندان اسلام غزہ بحران پر الزام تراشیات بند کریں اور متفق ہو جائیں- فلسطینیوں کی مدد کے لیے اللہ تعالی سے کثرت سے دعائیں کریں-
 
ہم ب دشمن کے نشانہ پر ہیں، دشمن غزہ میں تباہی و بربادی مچائے ہوئے ہے اور ہم باتیں بنانے میں لگے ہوئے ہیں- امام حرم نے کہا کہ غزہ میں سینکڑوں فلسطینی شہید اور ہزاروں زخمی ہو چکے ہیں، مسلمان جذباتی نعروں سے بچیں- دوسری جانب سعودی وزیر خارجہ شہزادہ سعود الفیصل نے ریاض میں ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ خلیجی قائدین فلسطینی المیہ پر عرب سربراہ کانفرنس میں بات کریں اور مشترکہ مؤقف پر اتفاق رائے پیدا کرنے کے لیے ریاض میں خلیجی سربراہ کانفرنس طلب کی- شہزادہ سعود الفیصل نے کہا کہ تمام خلیجی ممالک نے غزہ سے متعلق مصری فارمولے کی حمایت کی- عرب اقتصادی سربراہ کانفرنس کویت میں منعقد کی گئی- اس میں سعودی وفد کی قیادت بھی خادم الحرمین شریفین شاہ عبد اللہ بن عبد العزیز نے کی- اس کانفرنس میں سلامتًی کونسل کی قرارداد 1860 نابذ العمل کرانے پر زور دیا گیا-

خادم الحرمین شریفین شاہ عبد اللہ بن عبد العزیز نے فلسطین کے مظلوم اور ستم رسیدہ لوگوں کی امداد کے لیے عوامی مہم چلانے کا اعلان کیا، یہ مہم مملکت کے تمام علاقوں میں چلائی گئی جسکی نگرانی وزیر داخلہ شہزادہ نائف بن عبد العزیز نے کی، جس میں 220 ملین ریال سے زیادہ جمع ہوئے جسے غزہ کے متاثرین کی امداد کے لیے استعمال کیا جارہا ہے-
 
مقامی بینکوں اور اسکی شاخوں میں خصوصی اکاؤنٹ کھول دیا گیا ہے جبکہ بلڈ بنک سوسائٹی خون کے عطیات بھی جمع کررہے ہیں- کویت میں اقتصادی، ترقیاتی و سماجی عرب کانفرنس نے غزہ پر اسرائیلی جارحیت بند کروانے، فلسطینیوں کو درکار امداد مہیا کرنے اور عربوں کے اقتصادی، ترقیاتی اور سماجی مسائل کے حل کرنے کا عزم ظاہر کیا- غزہ کی تعمیر نو اور عرب ممالک کو ریلوے نظام سے جوڑنے کا عندیہ بھی دیا گیا- شاہ عبد اللہ نے عرب راہنماؤں پر باہمی رنجشیں دور کرنے پر زور دیا- سعودی عرب کی ایک نجی کمپنی غزہ میں 300 مکانات اور 30 مساجد تعمیر کرائے گی- اسلامی ترقیاتی بینک، انٹرنیشنل فلاحی ادارہ 50 لاکھ ڈالر طبی امداد فراہم کریں گے-

حماس مسلم ونگ کے عزاء الدین قسام بریگیڈ نے 23 روزہ غزہ کی پٹی پر لڑائی کے دوران2 اسرائیلی فوجیوں کو گرفتار کرنے کے ساتھ ساتھ اسرائیل کے 80 فوجیوں کو ہلاک و زخمی کرنے اور 47 ٹینکوں اور گاڑیوں کو تباہ کرنے کا دعوی کیا ہے- عزاء الدین قسام بریگیڈ کے ترجمان ابو عبیدہ نے اسرائیل کی جانب سے حماس کے پانچ سو سے زائد ارکان کو شہید کرنے کے دعوے کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اپنے لوگوں کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ اسرائیل کا دعوی جھوٹا اور بے بنیاد ہے-
 
لڑائی میں حماس کے صرف 48 کارکن شہید ہوئے جبکہ قسام نے غزہ میں لڑائی کے دوران دو اسرائیلی گرفتار کیے ہیں- فلسطینی قوامی ادارے کے مطابق اس جنگ میں تمام معاشی سرگرمیوں کو مجموعی خسارہ تقریباً 55 کروڑ ڈالر تک پہنچ گیا جو یومیہ 2 کروڑ چالیس لاکھ ڈالر بنتا ہے- ادارے نے اعداد و شمار بتاتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیلی جارحیت نے دوران جنگ 4000 مکانات مکمل تباہ کردیے- 16000 گھروں،عمارتوں کو جزوی نقصان پہنچایا ہے- جبکہ 1500 صنعتی مراکز، دکانیں اور تجاری مراکز کو نقصان پہنچایا ہے- اس وقت 10 لاکھ فلسطینی بجلی کی بنیادی سہولتوں سے محروم ہوگئے ہیں- اسرائیلی حکام پر جنگی جرائم کا مقدمہ قائم کرنے کی ضرورت ہے-

مختصر لنک:

کاپی