ایک عبرانی اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اسرائیل کی طاقت کے زور پر مطالبات تسلیم کرانے کی حکمت عملی غیردانشمندانہ اور نقصان دہ ہے- غزہ میں اسرائیل نے طاقت کے استعمال کے باوجود شکست کھائی اور اپنے دشمن کوشکست نہ دے سکا-
اسرائیل کو جنگ اور کشمکش کے خاتمے کے لیے طاقت کے بجائے مذاکرات کی راہ اختیار کرنا ہو گی- لیوی کا مزید کہنا ہے کہ اسرائیل غزہ پر راکٹ حملے روکنے کا بہانہ لے کر حملہ آور ہو ا تھا- مزاحمت کاروں کی جانب سے جس تواتر کے ساتھ جنگ سے قبل راکٹ داغے جاتے تھے نہ صرف وہ اب جاری ہیں بلکہ راکٹ حملوں کی تعداد میں خاطر اخواہ اضافہ ہوا ہے-
اسرائیل کے جنوبی علاقے اب بھی اسی طرح غیر محفوظ ہیں جس طرح جنگ سے قبل غیر محفوظ تھے- حکومت کے لیے یہ جنگ ایک اہم سبق ہے کہ وہ طاقت کے ذریعے اپنے مطالبات تسلیم نہیں کر ائے جا سکتے نہ ہی ،جنوبی اسرائیل کو مزاحمت کاروں کے حملوں محفوظ بنا یا جا سکتا ہے-
اسرائیلی تجزیہ کار نے کہا کہ غزہ پر فوج کی وحشیانہ بمباری نے اسرائیل کو عالمی سطح پر تنہا کردیا ہے ، دنیا بھر میں اسرائیل پرتنقید کی جارہی ہے- امریکہ جیسا اہم اتحادی ن حملوں کی وجہ ہم سے زیادہ خوش نہیں – یہ جنگ اسرائیل کے مستقبل پر گہرے منفی اثرات مرتب کرے گی- دوسری جانب حماس جسے اسرائیل کمزور کرنے کے دعوے کر رہا ہے حقیقی معنوں میں وہ مزید مضبوط ہو رہی ہے-