پنج شنبه 01/می/2025

برطانوی پارلیمنٹ کے رکن چوہدری سرور کا خصوصی انٹرویو

منگل 10-فروری-2009

سلامتی کونسل کی قرارداد تسلیم نہ کرنے والے جارح
اسرائیل کا بائیکاٹ کرتے ہوئے اس کے
 خلاف اقتصادی پابندیاں عائد کی جائیں

چوہدری محمد سرور صاحب دنیا کے حالات پر آپ کی نظر ہے آپ کے خیال میں غزہ پر اسرائیلی حملے اور جارحیت کے مشرق وسطی پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟

غزہ میں فلسطینی عوام کے خلاف اسرائیل کی جانب سے ستائیس دسمبر سے جس بدترین جارحیت کا آغاز کیاگیا میں سمجھتاہوں کہ اس کے ردعمل کے طور پر مسلم دنیا میں اسرائیل کے ساتھ ساتھ امریکہ اور مغربی دنیا کے خلاف بھی نفرت بڑھے گی- مسلم دنیا دیکھ رہی ہے کہ بچوں اور عورتوں پر غزہ میں کس طرح ظلم ڈھایا گیا، بے گناہ لوگوں کو شہید کیا گیا، پوری دنیا یہ بھی دیکھ رہی کہ انٹرنیشنل کمیونٹی اس کھلے ظلم کو روکنے کے لیے کسی بھی قسم کا ایکشن لینے سے انکاری ہے، ستم بالائے ستم یہ ہے کے سلامتی کونسل میں جب قرارداد پیش کی گئی تو امریکہ نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا-
 
میرے خیال میں امریکہ کے اس رویے کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے- عالمی برادری کویہ بات سمجھنا پڑے گی کہ دنیا میں دہشت گردی کے فروغ کا سب سے بڑا سبب مسئلہ فلسطین کا اب تک حل نہ ہو سکنا ہے- اس لیے جب تک امریکہ اور عالمی برادری عالمی مسائل اور تنازعات کو منصفانہ بنیادوں پر حل نہیں کرتی دنیا میں امن قا ئم نہیں ہوسکتا-

امریکہ اور عالمی برادری کے اس رویے کی وجہ سے دنیا کے لبرل اور اعتدال پسند لوگوں کے لیے مشکلات بڑھ رہی ہیں- کیونکہ دہشت گرد لوگ یہ کہتے ہیں کہ امریکہ اور اسرائیل مسلمانوں کے خلاف دہشت گردی کررہے ہیں جس کا وہ جواب دے رہے ہیں- میرے خیال میں یہ بہت بدقسمتی ہے کہ امریکی کردار اس سلسلے میں بہت ہی گھناؤنا ہے-

عالمی برادری نے ایک طویل عرصہ تک اسرائیل کی طرف سے غزہ کی ناکہ بندی سے چشم پوشی کیے رکھی- کیا آج کی مہذب دنیا اس چشم پوشی کے لیے کوئی معقول عذر پیش کرسکتی ہے؟

میری رائے میں اس کا کوئی جواز پیش نہیں کیا جاسکتا- اسرائیل نہ صرف کھلی جارحیت کا مرتکب ہوا ہے بلکہ اس نے فلسطینی علاقے پر قبضہ کررکھا ہے اور مزید زیادتی کی بات یہ ہے کہ اسرائیل فلسطینی بچوں اور عورتوں کو بھی ظلم کا نشانہ بنارہا ہے، لیکن یہ خوش آئند بات ہے کہ مغربی دنیا اور برطانیہ اس حوالے سے امریکہ سے مختلف مؤقف رکھتے ہیں، جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ سلامتی کونسل کے تقریباً سبھی ارکان بشمول برطانیہ نے جنگ بندی قرارداد کی حمایت کی ہے- برطانیہ کی تو شروع سے ہی یہ پالیسی ہے کہ اسرائیل جو یہودی بستیاں آباد کررہا ہے انہیں ختم کرے اور 1967ء کی عرب اسرائیل جنگ سے پہلے والی سرحدی پوزیشن پر واپس جائے-

ایک طویل عرصہ تک زیر محاصرہ رہنے والے اور فاقہ کشی پر مجبور فلسطینی عوام پر اسرائیل نے ایک لمبی تیاری کے بعد جو جنگ مسلط کی ہے اس کے بارے میں بالعموم جمہوری ریاستوں کے حکمرانوں کا رویہ معقولیت پر مبنی نہیں ہے- آپ اس بارے میں کیا کہتے ہیں؟

جی ہاں یہ تاثر بالکل درست ہے- ہم نے جو دوہرا معیار اپنایا ہوا ہے اس کے باعث مشکلات میں اضافہ ہورہا ہے- لوگوں میں بے چینی بڑھ رہی ہے- خصوصاً امت مسلمہ اور امریکہ کے درمیان خلیج پیدا ہو رہی ہے- بلکہ میں یہ کہوں گا کہ امریکہ کے خلاف لوگوں کے جذبات اشتعال کی حدتک جارہے ہیں، کیونکہ لوگ سمجھتے ہیں کہ امریکہ آنکھیں بند کر کے اسرائیل کی حمایت اور مدد کررہا ہے جو عالمی رائے عامہ کو پسند نہیں-

آپ ان حالات میں نئے امریکی صدر اوباما کے لیے کیا چیلنج دیکھتے ہیں اور ان کے لیے کیا لائحہ عمل تجویز کرتے ہیں؟

میں سمجھتا ہوں کہ ان حالات میں صدر اوباما کے لیے فی الواقع چیلنج موجود ہیں- لیکن جہاں باراک اوباما کے لیے چیلنج ہیں وہیں ان کے لیے مواقع بھی ہیں- دنیا میں اس وقت جتنے مسائل ہیں خصوصاً افغانستان، عراق، فلسطین اور کشمیر ایسے سلگتے ہوئے عالمی تنازعات کے حوالے سے لوگ اوباما کی امکانی پالیسیوں کے منتظر ہیں- لوگ سمجھتے ہیں کہ جس طرح ایک سیاہ فام باراک حسین اوباما امریکی صدر بنے ہیں تو یہ ایک تاریخی واقعہ ہے- میرے خیال میں نئے امریکی صدر کی دو ایک پالیسیز ایسی ہیں جن کے حوالے سے وہ آگے بڑھ کر کردار ادا کرسکتے ہیں- ایک تو صدر اوباما نے کہا ہے کہ گوانتا ناموبے دہشت گردی کا اڈہ بن چکا ہے- جہاں لوگوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے، لوگوں کو مارا پیٹا جاتا ہے- حتی کہ تین لوگ خودکشی پر مجبور ہوگئے تھے-
 
امریکی صدر نے اس صورتحال کو امریکی وقار کے منافی اور امریکہ کے نام پر دھبہ قرار دیا ہے- میں سمجھتا ہوں کہ یہ اوباما کی مثبت ’’اپروچ‘‘ ہے- دوسری بات جو صدر اوباما نے صدارتی حلف اٹھانے سے بھی پہلے کی ہے وہ یہ ہے کہ وہ مذاکرات چاہتے ہیں- بلاشبہ یہ ایک اہم پیش رفت ہوگی- میرا صدر اوباما کو یہ مشورہ ہوگا کہ امریکہ ایران کے ساتھ مذاکرات کرے، حماس جو فلسطینی عوام کی نمائندہ جماعت ہے کہ اسے فلسطینیوں کی اکثریت نے ووٹ دیا تھا، اس کے ساتھ بھی گفت و شنید شروع کی جائے، کیونکہ دہشت گردی پر قابو پانے کے لیے بات چیت بہترین راستہ ہوسکتی ہے، بات چیت کے مقابلے میں طاقت سے لوگوں کو دبانے کی بات آج کے دور کی نمائندگی نہیں کرتی-
 
اب مکالمے کا دور ہے- بات چیت ہی مسائل کو سمجھنے اور ان کے حل کا ذریعہ بن سکتی ہے لیکن یہ کہنے میں مجھے کوئی باک نہیں کہ امریکہ نے سلامتی کونسل میں فلسطین کے بارے میں حالیہ قرارداد کے لیے ووٹنگ میں حصہ نہ لے کر ہٹ دھرمی کا ثبوت دیا ہے- ایک طرف امریکہ نے اقوام متحدہ کی قرارداد کے برعکس عراق میں فوج بھیج کر ایک آزاد اور خود مختار ملک پر قبضہ کرلیا ہے اور عراقی لوگوں کو شہید کیا ہے عراق کا اندرونی انفراسٹرکچر تباہ کردیا ہے- حتی کہ اس کی سڑکیں، سکول، کالج اور یونیورسٹیاں تک تباہ کردی ہیں، اور دوسری جانب ایک ملک جو جارح اور نہتے لوگوں پر ظلم کررہا ہے- اس کو اربوں ڈالر کا اسلحہ بھی دیتا ہے- مالی تعاون بھی کرتا ہے اور اس پر کسی قسم کا دباؤ ڈالنے کی حمایت نہیں کرتا یہ بہت ہی افسوسناک صورتحال ہے- میرے خیال میں صدر بش امریکی تاریخ کے سب سے نااہل اور نالائق صدر رہے ہیں اور کوئی بھی دوسرا صدر جارج ڈبلیو بش سے بہتر ثابت ہوگا-

چوہدری سرور صاحب! دنیا بھر میں پہلے عراق پر امریکی حملوں کے خلاف سول سوسائٹی کا ردعمل سامنے آیا، اب فلسطین پر اسرائیلی فوجی جارحیت حملے کے خلاف بھی عالمی سطح پر عوامی ردعمل بڑا شدید دیکھا جارہا ہے- لیکن جمہوریت پر یقین رکھنے والی عالمی طاقتیں جمہور کی اس عالمی آواز کو کیوں سمجھ نہیں رہیں؟

آپ نے درست کہا- میں اس صورتحال کو جمہوری کمزوری قراردوں گا لیکن ہمیں اس میں بھی مثبت کردار ادا کرنا ہے- سب سے پہلے تو یہ کہوں گا کہ اگر مسلم ممالک کے حکمرانوں میں اتحاد اور اتفاق ہو تو وہ امریکہ پر دباؤ ڈالیں کہ امریکہ کے ساتھ مسلم ممالک کے معاشی تعلقات امریکی پالیسیوں اور مسلمانوں کے خلاف اقدامات کے باعث متاثر ہو سکتے ہیں- خصوصاً جب تک امریکہ اسرائیلی غنڈہ گردی کو سپورٹ کرتا رہے گا امریکہ سے مسلم دنیا معاشی و تجارتی تعلقات بحال نہیں رکھ سکے گی- اور مسلم دنیا امریکہ سے اسلحہ بھی نہیں خریدے گی- اگر سارے مسلم ممالک یہ مؤقف اختیار کرلیں تو اس کے کافی اچھے نتائج سامنے آسکتے ہیں- اس کے ساتھ ہی ایک ہی مثبت بات بھی سامنے لانا چاہتا ہوں کہ برطانیہ اور دوسرے مغربی ممالک کے عوام خطے میں امریکی مؤقف اور اسرائیلی بدمعاشی سے اتفاق نہیں کرتے-

بدقسمتی سے عرب لیگ اور او آئی سی ایسے فورم بھی موجودہ حالات میں کوئی مؤثر کردار ادا کرنے میں تامل سے کام لے رہے ہیں- آپ کے خیال میں اس کی وجہ خوف ہے یا ان کی کوئی اندرونی خرابی؟

مسلم دنیا کے حکمرانوں کی اس خرابی کی صرف یہی وجہ ہے کہ یہ اپنے ذاتی مفادات کو اپنے ملکوں اور عوام کے مفادات پر ترجیح دیتے ہیں اور امریکہ سے ڈرتے ہیں کہ کہیں امریکہ ان کی حکومت کو ہلا نہ دے- مسلم دنیا میں بہت سی جگہوں پر آمرانہ حکومتیں ہیں جو اپنے ذاتی اقتدار کے لیے مسلمانوں کے اجتماعی مفادات کو بیچ رہی ہیں-

حالیہ برسوں میں امریکہ اور بڑی طاقتوں کی طرف سے مسلم ممالک کی سیاست اور حکومتی نظام میں کھلی مداخلت دیکھنے میں آئی ہے- نیز امریکہ کے بعد اسرائیل طاقت کا بے محابا استعمال کرنے لگا ہے- اسی طرح کی دھمکیاں بھارت بھی دینے لگا ہے- کیا دنیا ایک مرتبہ پھر جنگل کے قانون کی طرف تو نہیں بڑھ رہی ہے؟
جی یہ جنگل نہیں ہے- آپ کو معلوم ہوگا کہ برطانوی پارلیمنٹ کے ہم چار ارکان نے ماہ جنوری میں پاکستان کا دورہ کیا ہے- ہم نے پاکستان پر امریکی ڈرون حملوں اور میزائل حملوں کی مذمت کی ہے اور امریکہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ پاکستان کے اندر اپنے حملے فوری طور پر بند کرے-

آپ اس برطانیہ کے عوامی نمائندے ہیں جسے دنیا میں جدید جمہوریت کا بانی سمجھا جاتا ہے اور اس حوالے سے برطانوی پارلیمان دنیا بھر کی پارلیمانوں کی ماں ہے لیکن کیا وجہ ہے کہ فلسطینی قانون ساز اسمبلی کے بیالیس منتخب ارکان کو گرفتار کیے جانے اور فلسطینی سپیکر ڈاکٹر عزیز دویک کو اسرائیلی فوجی عدالت کی جانب سے تین سال کی سزائے قید سنائے جانے پر برطانوی پارلیمنٹ بھی ایسا ردعمل نہیں ظاہر کرسکی جو جمہوری روح کا تقاضا ہے؟

میں سمجھتا ہوں اصل مسئلہ یہ ہے کہ جس طرح آپ پاکستان میں مجبور ہیں، ہم سب یک محوری دنیا میں رہ رہے ہیں- لیکن اس کے باوجود میں یقین دلاتا ہوں کہ برطانوی حکومت فلسطینیوں کے حق کی مکمل حمایت کرتی ہے- برطانیہ فلسطین کو امداد دینے والا دوسرا بڑا ملک ہے- ہم فلسطینی اتھارٹی کو اس لیے فنڈنگ کرتے ہیں کہ فلسطینی نہایت غربت کی زندگی گزار رہے ہیں بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ غزہ کو دنیا کی سب سے بڑی جیل میں تبدیل کردیا گیا ہے- یہ بہت بدقسمتی کی بات ہے لیکن برطانیہ کا واضح مطالبہ ہے کہ اسرائیل اپنا قبضہ ختم کرے-

فلسطین میں 2006ء میں ہونے والے عام انتخابات میں حماس کو واضح اکثریت ملی تھی لیکن اس کی حکومت غیر جمہوری طریقے سے ختم کردی گئی- اب 9 جنوری 2009 کو محمود عباس کی صدارت کی آئینی مدت ختم ہو چکی ہے کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ایک منتخب حکومت کو اس طرح ختم کرنا اور ختم ہونے والی صدارت کو جاری رکھنا جائز ہے؟

جب حماس کی حکومت منتخب ہوئی تو یہ معاملہ برطانوی پارلیمانی کمیٹی میں زیر بحث آیا- میں نے اس وقت کے وزیر اعظم ٹونی بلیئر کے سامنے یہ معاملہ اٹھایا تھا کہ اگر ہم حماس کی اکثریت رکھنے والی حکومت کو تسلیم نہیں کرتے تو ہمارے جمہوریت پر یقین کی نفی ہوگی- برطانیہ کو حماس کو تسلیم کرنا چاہیے- حماس کے ساتھ مذاکرات کرنے چاہئیں اور بہتری کا یہ موقع ضائع نہیں کرنا چاہیے- میں ایک ڈیموکریٹ ہوں دنیا میں جہاں بھی انتخاب ہوں گے اور لوگ جس جماعت کو بھی ووٹ دیں گے میں اس کی حکومت کو تسلیم کروں گا- میں سمجھتا ہوں کہ حماس کو لوگوں نے ووٹ دیئے تھے اور اس کی حکومت معطل نہیں کی جانی چاہیے تھی- اب بھی انٹرنیشنل کمیونٹی کو چاہیے کہ حماس کے ساتھ مذاکرات کرے-

کیا آپ سمجھتے ہیں کہ حماس کی منتخب حکومت کو اب بھی بحال کردیا جائے تو حالات بہتر ہوسکتے ہیں؟
دیکھیں اب تو نئے صدارتی
انتخاب ہونے چاہئیں- فلسطینی عوام جس جماعت کو بھی ووٹ دیں اس کو حکومت کرنے کا حق ملنا چاہیے-کیا آپ سمجھتے ہیں کہ عالمی تنازعات میں سلامتی کونسل کے عمومی رویے کے باعث عام لوگوں اور چھوٹے ممالک کا اعتماد مجروح ہو جائے گا؟

عالمی ادارے بڑے ملکوں کے بالعموم اور امریکہ کے بالخصوص کٹھ پتلی بنے ہوئے ہیں- اس وجہ سے ان کی ساکھ اور عزت میں کمی آئی ہے- اس لیے میری رائے یہ ہے کہ سلامتی کونسل کے ڈھانچے اور ورکنگ میں بہتری لانے کے لیے اصلاحات کی ضرورت ہے- دنیا میں ایک ارب بیس کروڑ مسلمان ہیں لیکن ایک بھی مسلم ملک سلامتی کونسل کا رکن نہیں ہے- میں سمجھتا ہوں سلامتی کونسل کو اس پر کام کرنا چاہیے اور کم از کم دو مسلم ممالک کو سیکورٹی کونسل رکن ہونا چاہیے-

عالمی اداروں کی بے حسی اپنی جگہ کیا دنیا کی ایک اہم پارلیمنٹ کے رکن کے طور پر آپ سمجھتے ہیں کہ برطانوی پارلیمنٹ عالمی اداروں کے کردار کی کمی کا ازالہ کرنے کے لیے دنیا بھر کی پارلیمانوں کی راہنمائی کرسکتی ہے؟

ہم نے ایک خط وزیر اعظم گورڈن براؤن کو لکھا ہے- اس پر بہت سے ایم پیز کے دستخط ہیں- خط میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ فلسطین کے مسئلے کو حل کرانے کے لیے برطانیہ کو قائدانہ کردار ادا کرنا چاہیے اور فلسطینیوں پر جو ظلم ہو رہا ہے اس کی روک تھام کے لیے مناسب اقدامات کرنے چاہئیں- نیز اسرائیل کو خبردار کرنا چاہیے کہ اپنی ان حرکتوں کو بند کرے-

کیا ان حرکات کی وجہ سے اسرائیل کا عالمی برادری بائیکاٹ بھی کرسکتی ہے؟

اقوام متحدہ کی قرارداد تسلیم نہ کرنے پر اسرائیل کا عالمی سطح پر بائیکاٹ کیا جانا چاہیے اور اس کے خلاف پابندیاں بھی عائد کی جانی چاہئیں-

مختصر لنک:

کاپی