اگر ہمیں ان کے بارے میں خفیہ معلومات نہ ہوتیں تو ہمارے فوجیوں کا قتل عام ہوتا- اسرائیلی ٹی وی کو انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ غزہ میں ہمارے بہت سے جاسوس تھے- جنہوں نے ہمارے فوجیوں کو حماس کی کمین گاہوں اور پھندوں سے بچایا- التفاح علاقے میں فوجی کمانڈر کو ٹینکوں کے راستے میں دھماکہ خیز مادہ رکھنے جانے کی اطلاع ملی، جس کے باعث ٹینکوں کا راستہ تبدیل کردیا گیا- اگر یہ خبر ہمیں نہ ملتی تو ایک ہی دفعہ بیسیوں فوجی ہلاک ہو جاتے-
اسرائیلی چھاتہ برداروں کے سپریم کمانڈر کا کہنا تھا کہ حماس نے غزہ کو ہمارے لیے قبرستان بنانے کی تیاری کررکھی تھی لیکن خفیہ معلومات اور ہماری فوجی طاقت کے اشتراک کے باعث ہماری صفوں میں زیادہ نقصان نہیں ہوا- ہمیں پے درپے معلومات ملتی رہیں- علاقے میں داخل ہونے سے پہلے ہم اسے آگ لگا دیتے جس سے ہمارے فوجیوں کے حماس کے پھندوں سے بچنے میں مدد ملی- ہمیں اس حدتک معلومات حاصل ہوتی تھیں کہ فلاں جگہ پر فلسطینی چھپا ہوا ہے جو ٹینک کے ڈرائیور پر گولی چلانے والا ہے- یہ خبر فوراً ٹینک کے ڈرائیور کو پہنچا دی جاتی جس سے وہ محتاط ہو جاتا-
اسی سلسلے میں خفیہ ادارے کے ’’لینور‘‘ نامی افسر نے کہا کہ جنگ کے لیے جن جاسوسوں کی بھرتی کی گئی ان کا کردار بہت اہم ہے- ہم نے ان جاسوسوں کی جانوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اپنے فوجیوں کی زندگی کی حفاظت کی- فوجیوں کی جانوں کے سامنے جاسوسوں کی زندگی کی کوئی حیثیت نہیں- ہمارے لیے ہماری فوجیوں کی زندگی بہت اہم تھی- اسرائیلی فوج اور خفیہ اداروں کے درمیان بہت تعاون رہا- تمام معلومات فوجیوں تک پہنچائی جاتی تھیں-
اپنی زندگی پر جنگ کے نفسیاتی اثرات پڑنے کے حوالے سے ’’لینور‘‘ نے کہا کہ جنگ نے مجھ پر نفسیاتی طور پر بہت اثرات مرتب کیے ہیں- میں اپنے چار سالہ بیٹے سے تفتیش کرتا تھا اور اس کی جواب طلبی کرتا- یہ وہ جنگی اثرات ہیں جو نفسیاتی طور پر ایک خفیہ ادارے کے سربراہ پر پڑے-
اسرائیلی ٹی وی کے مطابق حماس کے خلاف فوجی ناکامی کے بعد فوجی افسران معلومات حاصل کرنے کی کامیابیوں کے تذکرے کررہے ہیں- اسرائیلی فوجی افسران اس بات کی طرف بھی اشارہ کررہے ہیں کہ فلسطینی مزاحمت کار بڑی تیزی سے جاسوسں وں کا انکشاف اور ان میں سے خطرناک افراد کا صفایا کرنے میں کامیاب رہے-