پنج شنبه 01/می/2025

فلسطینیوں میں امید کی کرن

پیر 9-فروری-2009

26 جنوری کو قاہرہ میں اسلامی تحریک مزاحمت (حماس) کے ایک نمائندے اور فتح کے راہنما عزام الاحمد کے درمیان ہونے والی ملاقات سے ان ہزاروں فلسطینیوں کے دلوں میں امید کی شمع روشن ہوئی ہے عام لوگ چاہتے ہیں کہ فلسطین کی دو سب سے بڑی جماعتوں کے درمیان پائے جانے والی تنازعے اور خلفشار کی کیفیت اپنے انجام کو پہنچ سکے-

اگرچہ ظاہری طور پر یہ معمول کی رسمی ملاقات تھی، لیکن اس ملاقات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگر دونوں اطراف سے وسیع القلبی کامظاہرہ کیا جائے تو دونوں جماعتوں کے درمیان اختلافات کی خلیج کو ختم کیا جاسکتا ہے – خصوصاً رام اللہ میں برسراقتدار ٹولہ اسرائیل اور امریکہ کے آگے جھکے رہنے کی پالیسی سے دستبردار ہو جائے تو معاملات زیادہ بہتر بنائے جاسکتے ہیں-
 
یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ اس تنازعے اور خلفشار کی وجہ سے فلسطینیوں کی عادلانہ جدوجہد اور مؤقف کو شدید نقصان پہنچا ہے اور فلسطینیوں کے دلوں میں کئی زخم پیدا کردئیے ہیں اور ان زخموں کے مندمل ہونے میں کافی وقت لگے گا- اس سب کے باوجود فلسطینی ایک وحدت ہیں ایک قوم ہیں، ان کا درد ایک ہے- دونوں جماعتوں کے کارکنان کو ایک ہی قابل نفرت مسلط حکومت کا سامنا ہے اور دونوں اس امید پر زندہ ہیں کہ آزادی اور انصاف مل کر رہے گا- لیکن ایک طویل المدت اتفاق رائے کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ وہ دیانت داری اور فراخدلی سے کام لیں اور دوسرے فریق کو جھکانے اور ذلت آمیز قرار دینے سے باز رہیں- یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ نہ حماس کونہ فتح کو نقشے سے بالکل مٹادیناممکن نہیں ہے-

اس میں کوئی شبہہ نہیں ہے کہ فلسطینیوں کے ساتھ بہت بڑا سانحہ ہوا ہے لیکن اس فوجی جارحیت کے بعد کسی بھی لحاظ سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ معصوم بچوں،مردوں، عورتوں کو قتل کرنے اور وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے سے اور گھروں بازاروں کو پتھر کے ڈھیروں میں تبدیل کرنے سے اسرائیل کو کامیابی مل گئی ہے- اگرچہ اسرائیل کا ابھی تک یہی دعوی ہے کہ اس نے بڑا مثالی کردار ادا کیا ہے- اگر ایسا ہی ہے تب ہمیں اڈولف ہٹلر کو سب سے بڑا ہیرو قرار دینا ہوگا- کوشش کرنا چاہیے کہ دونوں اطراف ایک دوسرے کے خلاف بیانات دینے اور الزامات عائد کرنے کی دوڑ میں شرکت سے  ئندہ باز رہیں-

اسرائیل نے بھرپور کوشش کی کہ حماس کے ہاتھ پائوں باندھ کر رکھ دے، اس کی قانونی حکومت کا خاتمہ کردے (قانونی حکومت اس لیے کہ اسے عوام الناس نے منتخب کیا تھا) اور غزہ کی پٹی کو فلسطینی اتھارٹی کے راہنما محمود عباس کو پلیٹ میں رکھ کر پیش کردے لیکن اسے ناکامی ہوگئی- اسرائیل اپنے مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہا اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ اسرائیل نے فراخدلی اور نرمی سے کام لیا ہے- صہیونی مجرم ذہن کے ہوتے ہیں اور انہیں خوب اچھی طرح معلوم ہے کہ ’’فراخدلی‘‘ کا کیا مطلب برآمد ہوسکتا ہے-

فراخدلی اور مہربانی کے لیے بہرحال ایک ظرف کی ضرورت ہوتی ہے جو کہ صہیونیوں کے پاس موجود نہیں ہے- اسرائیل نے غزہ پر جو جنگ مسلط کی ہے اسی نے فلسطینیوں کو از سر نو متحد کردیا ہے-

مختصر لنک:

کاپی