یہ تیاری اس خدشے کے پیش نظر کی جارہی ہے کہ مستقبل میں ہونے والے کسی امن معاہدے کی صورت میں معالے ادومیم جیسی غیر قانونی آبادکاریوں کو مشرقی بیت المقدس اور دیگر آبادکاریوں کے ساتھ جوڑ دیا جائے اور فلسطینی علاقوں کو مزید تقسیم کر کے رکھ دیا جائے-
اسرائیل نے اس تعمیر کا منصوبہ 1994ء میں بنایا اور اعلی تعمیراتی کمیٹی نے 1999ء میں اس کی اجازت دے دی تاہم امریکی دباؤ کی وجہ سے اس پر عمل درآمد نہ ہوسکا تھا- مئی 2008ء میں اسرائیل نے اس علاقے میں ایک پولیس سٹیشن قائم کردیا اور اس کے بعد سڑکیں، پل، چوکیاں، پارک، چوراہے اور ملحقہ راستے تعمیر کرنا شروع کردیے اور اس کام پر سو ملین اسرائیلی شیکل خرچ کرڈالے، نیز اسرائیل نے فلسطینی خزمہ ٹاؤن کو الزائیم علاقے سے جوڑنے کے لیے ایک سڑک بچھانا شروع کردی تاکہ وہ ایل علاقے میں داخل نہ ہو سکیں- اس منصوبے سے بیت المقدس اور رام اللہ میں تسلسل برقرار نہ رہ سکے گا-
مارچ 2006ء میں اسرائیلی وزیر اعظم ایہود اولمرٹ انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد ایل علاقے میں نئی آبادکاریوں (Settlements) کو وجود میں لانا چاہتے ہیں نیز یہ بھی اعلان کرچکے ہیں کہ یہودی آبادکاریوں کو بیت المقدس سے جوڑنے کا تسلسل برقرار رہے گا- یہی معاملہ گشن ایتزون آبادکار بلاک اور ایریل سٹیلمنٹ بلاک کے مغربی کنارے کے جنوبی اور شمالی حصوں کے ساتھ ملادینے کا ہے-
اسرائیلی آن لائن روزنامے ’’ہارٹز‘‘ نے حال ہی میں وزیر اعظم ایہود اولمرٹ کے دفتر کے حوالے سے خبر دی ہے کہ معالے ادومیم سٹیلمنٹ بیت المقدس کا حصہ ہے اور یہ سٹیلمنٹ بیت المقدس کا حصہ رہے گی چاہے کوئی بھی امن معاہدہ ہو- یہ سٹیلمنٹ اور دیگر تمام یہودی سٹیلمنٹس فلسطینیوں کی اراضی پر غیر قانونی طور پر تعمیر کی گئی ہیں-
موجودہ منصوبے کے مطابق اسرائیل 12442 دنوم رقبے پر ایک نئی سٹیلمنٹ وجود میں لائے گا اور یہ اراضی الزاریہ، الطور اور العیساویہ کے فلسطینیوں سے چھینی جائے گی- اس میں پینتیس سو رہائشی یونٹ تعمیر کیے جائیں گے جو ساڑھے چودہ ہزار آبادکاروں کی رہائش کے لیے کافی ہوں گے- علاوہ ازیں دس ہوٹل، تفریحی سہولیات اور دیگر رہائشی بلاکوں کے علاوہ یہاں صنعتی علاقہ بھی قائم کیا جائے گا-
مزید برآں اسرائیلی وزیر دفاع ایہود باراک نے کہا ہے کہ معالے ادومیم بیت المقدس کا اور اسرائیلی ریاست کا لازمی حصہ ہے-
روزنامہ ’’ہارٹز‘‘ کی رپورٹ کے مطابق ایہود باراک کے دفتر سے ایک بیان جاری ہوا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ معالے ادومیم کو کوہ مشارف کے ساتھ جوڑ دیا جائے گا اور یہ انتہائی ضروری ہے کہ اس علاقے کو اسرائیل کے ساتھ ملحق رکھا جائے- سابق اسرائیلی وزیر اعظم یتزاک رابن کا بھی یہی بیان تھا جسے ایک انتہا پسند یہودی نے 1995ء میں قتل کردیا تھا علاوہ ازیں 1967ء میں اس علاقے پر اسرائیل کے تسلط کے بعد آنے والی تمام اسرائیلی حکومتوں کا مؤقف یہی چلا آرہا ہے- معالے ادومیم کا قیام مشرقی بیت المقدس کی فلسطینی اراضی پر وجود میں آیا ہے-
یہ شہر کے مشرق میں 114 کلو میٹر رقبے میں پھیلا ہوا ہے اور یہ اسے بیت المقدس کے دیگر قصبوں اور دیہاتوں کے ساتھ ملحق کردیتی ہے-اس منصوبے کے ذریعے علاقے میں مزید فلسطینی دیہاتوں اور شہروں کے وجود میں امکانات معدوم ہو جائیں گے اور وہ جغرافیائی تسلسل ختم ہو جائے گا جس کی بناء پر آئندہ وجود میں آنے والی فلسطینی ریاست کا دارالحکومت بیت المقدس بن سکے-
یہ منصوبہ بیت المقدس اور رام اللہ میں فلسطینی تعمیرات کا سلسلہ روک دے گا اور سرحدی معاملات کے بارے میں کسی معاہدے کا وجود مشکل ہو جائے گا- مقبوضہ بیت المقدس میں اسرائیلی آبادکاریاں بشمول مشرقی بیت المقدس اور اس کے اردگرد کے فلسطینی علاقوں میں غیر قانونی رہائشی آبادیاں ہر لحاظ سے غیر قانونی ہیں کیونکہ وہ مقبوضہ اراضی پر تعمیر کی گئی ہیں، تاہم تمام اسرائیلی حکومتوں کے لیے نئی نئی بستیوں اور آبادیوں کی فلسطینی زمین پر تعمیر اولین ترجیح رہی ہے- زمین پر قبضے کے دوران زیتون کے باغات مسمار ہو جائیں شہر اور قصبے اور دیہات الگ تھلگ ہو جائیں- اسرائیل کو اس کی کوئی پرواہ نہیں ہے-