دوشنبه 05/می/2025

اسرائیلی جنگی جرائم ، فلسطینی قیدیوں کا قتل عام

بدھ 4-فروری-2009

اسیران کے امور کے ماہر اور اسرائیلی عقوبت خانوں کی مشقیں کاٹنے والے فلسطینی اسیر عبد الناصر عونی فراونہ نے غزہ میں اسرائیلی جنگی جرائم کے متعلق آزاد بین الاقوامی کمیشن کی تشکیل کا مطالبہ کیا ہے- انہوں نے کہا کہ اسرائیلی افواج نے غزہ میں جنگ کے دوران فلسطینیوں کو گرفتار کرنے کے بعد انہیں قتل کیا- جبکہ مختلف مقامات پر نہتے شہریوں کو مختلف طریقوں سے ہلاک کیا گیا-
 
ان واقعات کی تحقیق کے لیے آزاد بین الاقوامی کمیشن تشکیل دیا جانا چاہیے- اسرائیلی فوج کے انخلاء کے بعد سڑکوں پر نہتے شہریوں کی بیسیوں لاشیں پڑی ہوئی ملی ہیں جبکہ گھروں کے اندر لاشوں کے ملنے کے واقعات ان گنت ہیں- عبد الناصر نے کہا کہ اسرائیلی درندگی کے متعلق ہمارے سامنے روزنئے واقعات کا انکشاف ہو رہا ہے جس سے رونگھٹے کھڑے ہو جاتے ہیں- ان واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ اسرائیلی افواج نے جان بوجھ کر قصداً نہتے فلسطینی شہریوں کو نشانہ بنایا- اسرائیلی انتظامیہ ہلال احمر کی تنظیم سے عدم تعاون پر مصر ہے-

وہ فلسطینی قیدیوں کے متعلق کسی قسم کی معلومات دینے سے انکاری ہے جس کے بعد اسیران کی زندگیوں کو لاحق خطرات میں اضافہ ہوا ہے- جنگ کے دوران اسرائیل نے وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کا بے بہا استعمال کیا جس سے نہتے شہریوں کی ہلاکت میں اضافہ ہوا- ابھی تک بیسیوں شہری لاپتہ ہیں- خطرہ ہے کہ اسرائیلی فوج نے جارحیت کے دوران انہیں شہید کرنے کے بعد ان کی لاشوں کو اسی جگہ دفنا دیا ہو یا انہیں گرفتار کیے جانے کے بعد خفیہ جگہ لے جاکر ہلاک کردیا گیا ہو-

عونی فراونہ نے واضح کیا ہے کہ عینی شاہدین اور شہریوں کی گواہیوں کے مطابق معصوم شہریوں کو ہلاک کیے جانے کے متعدد طریقے اپنائے گئے- زخمیوں کو تڑپنے دیا گیا- خون بہنے سے ان کی شہادت واقع ہوئی جبکہ ایمبولینسز اور طبی ٹیموں کو وہاں جانے سے روک دیا گیا- بعض مقامات پر شہریوں کو ہلاک کرنے کے لیے نشانہ باندھ کر قریب سے گولی چلائی گئی- شہریوں کو انسانی ڈھال کی طور پر استعمال کیا گیا اور وہ دوسری طرف سے آنے والی گولی کا نشانہ بن گئے-

شہریوں کی موجودگی کے باوجود عمارتوں کو تباہ کردیا گیا جس سے خاندانوں کے خاندان شہید ہوگئے- عمارتیں تباہ کرنے کے وقت اسرائیلی فوج کو علم تھا کہ ان عمارتوں میں معصوم شہری ہیں- بچوں کی چیخ و پکار انہیں سنائی دے رہی تھی لیکن انہوں نے نسل کشی کی خاطر عمارتوں کو شہریوں پر گرادیا-
غزہ کی پٹی کے سرحدی علاقوں پر متعدد ایسے واقعات بھی رونما ہوتے ہیں کہ اسرائیلی فوجی اہلکار غزہ میں داخل ہوئے اور شہریوں کو گرفتار کر کے حدود پار لے گئے، پھر انہیں رہا کردیا گیا اور پیدل واپس جانے کو کہا گیا جب وہ پیدل غزہ کی سرحد کی طرف چلے تو ان کو گولیوں سے بھون دیا گیا یا پھر توپوں کے گولوں سے شہید کردیا گیا- اسی طرح کا واقعہ بیت حانون کے ایک شہری شادی حمد کے ساتھ پیش آیا-

اسرائیلی افواج نے دیگر متعدد شہریوں کے ہمراہ اسے گرفتار کیا- انہیں سرحد کے قریب جبالیا کیمپ کے مشرق کی طرف لے جایا گیا پھر انہیں غزہ کی جانب واپس جانے کو کہا گیا- وہ القرم روڈ پر اسرائیلی افواج کے سامنے واپس چل پڑے-

شادی حمد اور اس کے ساتھی جب جبالیا کیمپ کی مسجد الصدیق کے قریب پہنچے تو اسرائیلی فوجیوں نے ان کی طرف توپ خانے کا دھانہ کھول دیا اور شدید بمباری کی- اس واقعہ میں شادی حمد شہید ہوگئے جبکہ دوسرے ساتھ معجزانہ طور پر بچ گئے- اسرائیلی بمباری سے محفوظ رہنے والے شہریوں کا کہنا ہے کہ اس حملے میں ان کا بچ جانا معجزے سے کم نہیں ہے- طبی ٹیموں کو شادی حمد کی لاش اٹھانے کی اجازت نہیں دی گئی- شہری شادی حمد کی لاش تین دن کے بعد کو اٹھانے میں کامیاب ہوئے-

عبد الناصر عونی نے ذکر کیا کہ نہتے شہریوں کو نشانہ بنانے کے واقعات میں سے ایک واقعہ 44 سالہ سمیر رشید کا ہے- 5 جنوری کو اسرائیلی فوج شمالی غزہ کے تل الکاشف علاقے میں سمیر رشید کے گھر میں داخل ہوئی- انہوں نے سمیر رشید کے گھر والوں کو گرائونڈ فلور میں محصور کردیا جبکہ سمیر رشید کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کرتے ہوئے اسرائیلی فوج اوپر والی منزل پر لے گئے- انہوں نے سمیر رشید کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کرتے ہوئے اوپر والی تمام منزلوں کی تلاشی لی- تلاشی لینے کے بعد انہوں نے سمیر رشید کا سینہ گولیوں سے چھلنی کردیا-

پھر اس کے بھائی منیر کو خبر دی کہ سمیر رشید زخمی ہے اس کے لیے ایمبولینس کا انتظام کرو- منیر گھر سے باہر نکلنے لگا تو گھر کو محاصرے میں لینے والے فوجی اہلکاروں نے اس کے ہاتھ پر گولی چلا کر ہاتھ کو زخمی کردیا- فوجی اہلکاروں نے زخمی سمیر کو نیچے لاکر اس کے بھائی کے سامنے ڈال دیا- سینے پر گولی لگنے سے مسلسل خون بہہ رہا تھا- خون بہنے سے وہ موت کے قریب سے قریب ہوتا جارہا تھا لیکن اس کے بھائی کو کسی قسم کی طبی امداد لانے کی اجازت نہ دی گئی- سنگدلی کی حد تھی کہ سمیر رشید نے جب جام شہادت نوش کرلیا تو اس کے بھائی کو آنسو بہانے کی اجازت تک نہ دی گئی- اسرائیلی فوجیوں نے منیر کو دھمکی دی کہ اگر تم نے کسی قسم کی آہ و پکار کی تو تمہارا انجام بھی تمہارے بھائی جیسا ہوگا- سمیر رشید کے اہل خانہ کو تین دن محصور رکھنے کے بعد گھر سے نکلنے کی اجازت دی گئی- جبکہ انہیں سمیر رشید کی لاش اپنے ساتھ لے جانے کی اجازت نہ دی گئی- سمیر رشید کی لاش دس دنوں سے بھی زائد عرصے تک گھر میں پڑی رہی- اقوام متحدہ کی ریلیف ایجنسی ’’اونروا‘‘ نے متعدد کوششوں کے بعد سمیر رشید کا جسد خاکی وہاں سے اٹھایا-

عبد الناصر عونی فروانہ نے واضح کیا کہ بہت سی ایسی المناک کہانیاں اور واقعات ہیں جن کی تحقیقات انسانی حقوق کے اداروں کے لیے ضروری ہیں- ان واقعات کی گواہی ویڈیو، آڈیو، تصاویر یا کسی نہ کسی صورت میں موجود ہیں- عبد الناصر عونی فروانہ نے مزید کہا کہ اسرائیلی جارحیت کی یہ کارروائیاں نئی نہیں ہیں بلکہ یہ کارروائیاں اس دہشت گردی اور جارحیت کا تسلسل ہے جو صہیونی گزشتہ آٹھ دہائیوں سے جاری رکھے ہوئے ہیں-
 
غزہ کے شہریوں کو گرفتار کر کے قتل کرنا اسرائیلی افواج کا کوئی نیا کام نہیں ہے- 1956ء اور 1967ء کی جنگوں میں مصری قیدیوں کا اجتماعی طور پر قتل کیا گیا- نہتے شہریوں کو نشانہ بنانے کی پالیسی پر عمل میں شدت انتفاضہ اقصی کی تحریک کے دوران آئی- اسرائیلی عدالت نے 2002ء میں فلسطینی شہریوں کا صفایا کرنے کی پالیسی کے حق میں فیصلہ صادر کیا اور اسرائیلی فوج کو قانونی تحفظ فراہم کیا جس سے فوجی اہلکاروں کو بیسیوں اسیران کو قتل کرنے اور نہتے شہریوں کو براہ راست نشانہ بنانے کے مواقع فراہم ہوئے-

مختصر لنک:

کاپی