ویانا میں تنظیم کے دفتر سے جاری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بمباری کے دوران شہری اپنے گھروں سے نکل کر مساجد میں پناہ لیتے لیکن قابض فوج مساجد پر بھی تباہ کن ہتھیاروں سے بمباری کرتی- اس طرح شہریوں کی شہادتوں میں اضافے کا ایک سبب اسرائیل کا رہائشی علاقوں اور مساجد میں اندھا دھند بمباری کرنا تھا-
رپورٹ میں غزہ کی مسمار کی گئی تمام مساجد کے نام اور ان میں شہید فلسطینیوں کی تعداد بھی جاری کی ہے-
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ قابض صہیونی فوج کی بمباری کے دوران درجنوں مساجد کو جزوی طور پر نقصان پہنچا جبکہ کئی مساجد کے ڈھانچے اب ناقابل استعمال ہو چکے ہیں-
قابض فوج نے مساجد کے بعد تعلیمی اداروں، سکولوں اور یونیورسٹیوں پر اندھا دھند بمباری کی اور ہر اس گھر کو بمباری کا نشانہ بنایا جہاں زیادہ سے زیادہ شہری خواتین اور بچے پناہ لیے ہوئے تھے- ’’انٹرنیشنل ہیومن فرنڈ شپ‘‘ نے اسرائیلی جارحیت کو بدترین دہشت گردی اور سنگین ترین جنگی جرم قرار دے دیا ہے-
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ اسرائیلی بمباری سے 1940ء کے دوران کی برطانوی فوج کشی کی یاد تازہ ہوئی ہے- دوسری جنگ عظیم کے دوران اس وقت کی برطانوی افواج نے اجتماعی قتل عام کی مثالیں قائم کیں اور مساجد اور عبادت خانوں کو ٹارگٹ بنا کر تباہ کیا گیا-