پنج شنبه 01/می/2025

فلسطینی نونہالو! ہم شرمندہ ہیں

بدھ 7-جنوری-2009

صبح سویرے بیگم، چھوٹے بیٹے محمد افنان کو گود میں اٹھائے آدھمکی۔ عربی مجلہ میرے ہاتھ سے چھین کر بولیں: ”کیا ہے آپ کو! یہ بچہ ایک ہفتے سے بیمار پڑا ہے، اس کی چھاتی رکی ہوئی ہے، سانس کتنی مشکل سے آرہا ہے۔ بچے کو چومتے ہوئے اور آنسو بہاتے ہوئے کہنے لگیں: تکلیف سے اس معصوم کی شکل بھی بدل چکی ہے۔

لائبہ، لائقہ بھی تین دن سے بخار سے بھن رہی ہیں۔ ہر روز میں کہتی ہوں کسی اچھے ڈاکٹر سے دوائی لے آئیں، لیکن آپ کے کالم ہی پورے نہیں ہوتے۔ آخر! آپ ہی ان کی صحت پر توجہ نہیں دیں گے تو کون دے گا؟ میری بے اعتنائی پر بائیں طرف پڑے اخبار کے بنڈل کو دیکھ کر کہنے لگیں: کیا یہ ان بچوں سے اچھے ہیں؟ میں نے کہا: ”چھوڑیں بیگم! ان باتوں کو، جو روزی مقدر میں ہے وہ مل کر ہی رہے گی۔ اور اللہ بچوں کو بغیر اسباب کے بھی شفا دینے پر قادر ہے۔

جائیے!جا کر دو گانہ پڑھیے، بچوں کی صحت کے لیے دعا کیجیے۔ “اس کے ساتھ ہی میں نے موضوع بدلنے کے لیے ایک اخبار کی شہ سرخی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: ”بیگم یہ دیکھیں! فلسطینی مسلمانوں پر صہیونی درندگی۔ اسرائیل نے ایک دفعہ پھر ”غزہ“ پر خونی حملے شروع کردیے ہیں۔ یہ دیکھیں! شہید ہونے والے 42 بچوں کی دل دکھاتی تصویریں اور یہ دیکھیں! اسرائیلی حملوں میں 600 کے قریب شہید ہونے والوں کے عزیز و اقارب اور رشتہ دار کس طرح غم سے نڈھال ہیں۔ کس طرح آہ وزاری کر رہے ہیں۔ بیگم سے وہ تصویریں دیکھی نہ گئی ۔وہ آنسو بہاتے ہوئے میرے پاس سے اٹھ کر چلے گئی۔

قارئین! یہ حقیقت ہے۔ جس نے بھی پچاس کے قریب پھول سے بچوں اور بچیوں کی دل دہلادینے والی تصویریں دیکھیں وہ صہیونیوں کی درندگی اور عالمِ اسلام کی بے بسی پر آنسو بہائے بغیر نہ رہ سکا۔ اس وقت میرے سامنے بیسیوں تصاویر رکھی ہیں۔ یہ تصویر ایک معصوم سی بچی کی ہے جس کی عمر بمشکل دس یابارہ برس ہوگی۔ اس بچی کے سر، ناک اور منہ سے خون بہہ رہا ہے۔ اس کی دونوں ٹانگیں شدید زخمی ہیں اور یہ ایک تباہ حال گھر کے سامنے اینٹوں، بجری اور ریت کے ڈھیر پر پڑی ہے۔ بچی کی دونوں آنکھیں کھلی ہیں اور اس کا لباس تار تار ہے۔
 
بچی کی یہ تصویر زبانِ حال سے 57 اسلامی ممالک کے حکمرانوں کو بہت کچھ کہہ رہی ہے۔ دوسری تصویر میں دو سال کے گلاب سے بچے کی گردن سے خون بہہ رہا ہے۔ اس کے والدین ہسپتال لے جانے کی کوشش کررہے ہیں لیکن صہیونیوں نے ان پر میزائل داغا جسے زخمی بچہ، ماں باپ سمیت شہید ہوجاتا ہے۔ یہ لاش عالمی ضمیروں سے سوال کناں ہے: ”میرا جرم کیا ہے؟“ ایک اور تصویر میں صہیونیوں کی اسکول پر فضائی بمباری سے شہید ہونے والے 8/ بچوں کی سفید کپڑوں میں لپٹی لاشیں رکھی ہیں۔
 
کفن سے بچوں کا منہ کھلا رکھا ہوا ہے۔ ان کے چہرے اتنے خوبصورت ہیں کہ دل پیار کرنے کو جی چاہتا ہے۔ وہ سوا ارب مسلمانوں سے پوچھ رہے ہیں کیا یونہی ہمیں مسلا جاتا رہے گا اور تم خاموش تماشائی بنے رہوگے؟ ان بچوں کی لاشیں دنیا کے 245 آزاد ممالک سے انسانیت کے ناتے پوچھ رہی ہیں ہمیں کیوں مارا گیا؟ ایک کتے اور بلے کے مارے جانے پر احتجاج کرنے والی نام نہاد انسانی حقوق کی تنظیمیں کیوں لب بہ مہر ہیں؟ کیا اس لیے کہ ہم مسلمان ہیں؟ ایک تصویر میں دس سالہ بچے کی میت کو دفنانے کے لیے لے جایا جارہا ہے۔
 
اس کے دوستوں نے میت کاندھوں پر اُٹھارکھی ہے۔ اس کے کلاس فیلو احتجاج کررہے ہیں۔ ایک پلے کارڈ پر درج ہے: ”اقوامِ متحدہ نے دونوں آنکھیں کیوں بند کی ہوئی ہیں؟“ دوسرے پر لکھا ہے: ”عرب حکمرانو! تاریخ سے سبق حاصل کرو۔“ ایک تصویر میں ایک بوڑھی خاتون، اپنی گود میں دو زخمی بچیوں کو لیے پریشان وحیران کھڑی ہیں۔ پس منظر میں اسرائیل کی وحشیانہ بمباری سے وسیع علاقے میں آگ لگی ہوئی ہے۔
 
اس کے گھر سے شعلے بلند ہورہے ہیں۔ بوڑھی خاتون بڑی حسرت سے اپنے گھر کو دیکھ رہی ہے جو جل رہا ہے۔ یوں معلوم ہوتا ہے اس کا سارا خاندان شہید ہوچکا ہے۔ صرف یہ دو نواسیاں یا پوتیاں باقی رہ گئی ہیں۔ وہ بوڑھی خاتون زبانِ حال سے کہہ رہی ہے: ”منصف ہو تو اب حشر اُٹھا کیوں نہیں دیتے؟“ ایک تصویر بچوں کے ہسپتالوں کی ہے۔ اس میں بیسیوں بچے زیرعلاج تھے لیکن صہیونی بمبار سے یہ ہسپتال بھی تباہ ہوگیا اور نتیجے میں بیمار بچے بھی شہید ہوگئے۔
 
انسانی حقوق کا ڈھنڈورا پیٹنے والو! بتاؤ تو سہی کہیں ایسا بھی ہوا ہے کہ بیمار اور معذوروں پر بمباری کرکے انہیں شہید کیا گیا ہے؟ یہ دیکھیں! غزہ سے تعلق رکھنے والا ”حسین“ نامی بچہ جو یکم محرم کو صہیونی ٹینکوں نے روند ڈالا مگر کوئی پوچھنے والا نہیں۔ قارئین! یہ پہلی دفعہ ایسا نہیں ہوا ہے کہ صہیونیوں کی بمباری سے پچاس کے قریب بچے مارے گئے ہیں۔
 
پہلے بھی متعدد بار ایسا ہوچکا ہے۔ 2006ء میں لبنان پر اسرائیل نے بدترین جارحیت کا ارتکاب کیا تھا۔ اس جنگ میں 55 کے قریب بچوں کے پرخچے اُڑگئے تھے۔ ان معصوم بچوں کی روحیں آج بھی امریکا اور اس کے زیر اثر اقوامِ متحدہ سے پوچھ رہی ہیں: ”ہمارے قاتلوں کو کون اور کب کٹہرے میں لائے گا؟

اسرائیلی غنڈوں کو کب نکیل ڈالی جائے گی؟“ مسلّمہ جنگی اُصولوں کے مطابق بوڑھوں، معذوروں، عورتوں اور بچوں کو امان ہوتا ہے لیکن ”انصاف کے علمبردار“ امریکا وبرطانیہ کے لے پالک صہیونی غنڈوں نے فلسطین کے بچوں کو خاک وخون میں تڑپاکر دنیا کو یہ پیغام دینے کی کوشش کی ہے ہم کسی قاعدہ وقانون کو نہیں مانتے۔ یہاں جنگل کا قانون ہے۔ طاقت کے سامنے سب ہیچ ہے۔

مختصر لنک:

کاپی