بعد ازاں ایہود باراک نے وزیر اعظم کے اس فیصلے سے حکمران جماعت کی سربراہ اور وزیر خارجہ زیپی لیونی کو آگاہ کیا تو انہوں نے بھی حماس کے خلاف فیصلہ کن جنگ کی حمایت کی- اس خفیہ فیصلے کی روشنی میں نیشنل سیکیورٹی کونسل کے اجلاس میں غزہ پر حملہ کے حوالے سے تفصیلی غوروخوض کیا گیا- اس اجلاس میں فوجی حکام کے علاوہ انٹیلی جنس کے اعلی عہدیدار بھی شریک تھے-
اجلاس میں فیصلہ کیا گیاکہ غزہ پر حملہ مختلف مراحل میں کیا جائے گا،حملے سے قبل اس کی کامیابی کو یقینی بنانے کے لیے تمام تر حساس اور عسکری نوعیت کی معلومات کو جمع کیا جائے گا – حملے کے لیے تین تاریخوں پر غور کیا گیا، نو جنوری2009 کو جب محمود عباس کی صدارتی مد ت ختم ہو گی، دس جنوری کو جب اسرائیل میں انتخابات ہوں گے یا بیس جنوری کو امریکی صدر باراک اوبامہ کے اقتدار سنھبالنے کے روز حملہ کیا جائے-
رپورٹ کے بعد وزیر اعظم ایہود اولمرٹ وزیر دفاع اور وزیر خارجہ نے سہ رکنی مشاورتی اجلاس میں فیصلہ کیا کہ اسرائیل غزہ سے داغے جانے والے راکٹوں کا معاملہ سلامتی کونسل میں اٹھائے اور فلسطینی راکٹوں پر سخت احتجاج کرے، اس طرح اسرائیل کو حماس کے خلاف فیصلن کن جنگ کا عالمی سطح پر جواز بھی مل جائے گا-
دوسری جانب اسرائیلی ریڈیو پر نشر ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ وزیر خارجہ زیپی لیونی نے دنیا بھر میں تعینات اپنے سفیروں کو ہدایت کی ہے کہ غزہ پر اسرائیلی حملے کے لیے سفارتی جنگ تیز کردیں اور دنیا بھر میں یہ ثابت کردیں کہ غزہ پر حملہ اسرائیلی دفاع کے لیے ناگزیر ہے-