پنج شنبه 01/می/2025

اسرائیلی فوج کی فلسطینیوں کے اغوا کی پالیسی

ہفتہ 20-دسمبر-2008

فلسطین کی تازہ صورت حال یہ ہے کہ قابض اسرائیلی فوجوں نے صرف ایک ماہ جولائی 2008ء کے دوران 468فلسطینی بچوں کا اغوا کرلیا ‘ ان بچوں میں سے بیشتر کا تعلق مغربی کنارے کے مختلف شہروں سے تھا‘ سب سے زیادہ بچے نابلس شہر سے اٹھائے گئے-
 
اس شہر کے 140کم عمر بچوں کو گرفتار کرکے لے جایا گیا- ان کی عمریں 18سال سے کم تھیں- اس کے علاوہ یہاں کے 6 عمر رسیدہ شہریوں کو بھی گرفتار کیا گیا- فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس اور غاصب ملک کے وزیراعظم ایہو اولمرٹ کے درمیان سیاسی مذاکرات کے آغاز سے اب تک اسرائیلیوں نے 3500فلسطینیوں کا اغوا کیا ہے ‘ حقوق انسانی و قیدیوں کے حقوق کا دفاع کرنے والی ’’نفحہ‘‘ تنظیم نے اپنی رپورٹ 25جولائی کو شائع کی تھی ‘ اس میں اس نے کہا تھا کہ 3500میں سے 500فلسطینی وہ ہیں جنہیں رہائی کے بعد اغوا کرلیا گیا‘واضح رہے کہ ان کی رہائی اتھارٹی کے صدر محمود عباس سے خیر سگالی کے اظہار کے لئے عمل میں آئی تھی مگر ا نہیں دوبارہ اغوا کرلیا گیا اور اب تک پتا نہیں چل سکاکہ انہیں کہاں  لے جایا گیا ہے ‘اس کے علاوہ نابلس کے میں العین کیمپ کی تفتیشی مہم کے دوران 100سے زائد فلسطینیوں کا اغوا کیا گیا جو اس وقت سے اب تک لاپتا ہیں-

سال رواں کے آغاز سے مئی کے اختتام تک غاصب اسرائیلی فوجیوں نے 2700 فلسطینی شہریوں کا اغوا کیا تھا ‘ اسرائیلی فوج کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق 2006ء میں 6000 فلسطینیوں میں سے 560 پر فرد جرم عاید کی گئی تھی- 2002ء میں اسرائیل نے جب دوبارہ مغربی کنارے کے شہروں پر قبضہ کیا تو فلسطینیوں کے اغوا اور گرفتاریوں کا سلسلہ عروج پر پہنچ گیااور چند ہی مہینوں میں گرفتارشدگان کی تعداد 2135ہوگئی اور یہی تعداد 2004ء میں قریباً 3000ہوگئی‘ 2005ء میں کسی قدر کمی آئی مگر 2006ء میں پھراضافہ ہوگیااور سابقہ تمام ریکارڈ ٹوٹ گئے- اس سال گرفتار فلسطینیوں کی  تعداد بڑھ کر 6000تک پہنچ گئی-

فلسطینی خواتین کے اغوا کے بارے میں عبدالناصر عونی فروانہ نے واضح کیا ہے کہ 1967ء سے نصف ستمبر 2007ء تک دس ہزارسے زائد فلسطینی خواتین کو غاصب اسرائیلی فوجیوں  نے اغوا کیا‘ ان میں 700خواتین وہ ہیں ‘جن کا اغوا انتفاضہ اقصی کے دوران کیا گیا- ان میں سے 110خواتین اب بھی اسرائیلی جیلوں میں صعوبتیں جھیل رہی ہیں- القدس بین الاقوامی ادارہ کی رپورٹ میں کہا گیاہے کہ القدس شہر سے تعلق رکھنے والے جن باشندوں کو قابض و غاصب فوجیوں نے اغواکیا‘ ان کی تعداد 525ہے-

ان میں سے 6خواتین اور 12کمسن بچے ہیں‘ 51قیدی وہ ہیں جنہیں اوسلو معاہدہ سے بھی پہلے سلاخوں کے پیچھے ڈالا گیا اور بین الاقوامی اصطلاح کے مطابق ان کا شمار قدیم ترین قیدیوں میں ہوتاہے- ایک دوسری رپورٹ میں کہاگیاہے کہ اغوا کرنے کے بعد جن فلسطینیوں کو قیدی بنایاگیاہے، ان میں سے سب سے بڑی تعداد نابلس شہر کے باشندوں کی ہے- ان کا تناسب قیدیوں کی مجموعی تعداد کے اعتبار سے 19.5.فیصد ہے ‘ رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ اسرائیلی جیلوں میں صرف نابلس شہر کے 1900سے 1950فلسطینی شہری ہیں‘ جو ہنوز اسرائیلی جیلوں میں قید و بند کی زندگی گزار رہے ہیں‘ نابلس کے ان قیدیوں میں 22خواتین اور 95بچے ہیں- اس کے علاوہ قیدیوں کی ایک بڑی تعداد ان لوگوں کی ہے جن کی عمریں 18سال سے کم ہیں-

ادارہ برائے فلسطینی قیدی و نظر بندی کی عمومی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی عقوبت خانوں میں اس وقت 11500قیدی ہیں- ان میں 360بچے اور 99خواتین ہیں-  قیدی اور قید سے رہائی پانے والوں کے امور کی وزارت کا کہناہے کہ غاصب اسرائیلی فوج نے دنیا میں گرفتار یوں اور نظر بندیوں  کا ریکارڈ توڑدیاہے- دنیا کا کوئی اورایساملک نہیں ہے جو اسرائیل کی طرح لوگوں کو اغوا کرنے اور گرفتار کرنے کی مہم چلاتا ہواور اس کا یہ عمل مسلسل 1948ء سے جاری ہے اور اس میں  بتدریج اضافہ ہی ہو رہاہے-
 
اس وقت اسرائیل نے ایک چوتھائی فلسطینیوں کو یا تو گرفتارکررکھا ہے یا اغوا کرلیا ہے- اسرائیلی فوجی آئے دن معمول کے مطابق فلسطینیوں پر دھاوابولتے ہیں اور انہیں یا تو گرفتار یا پھر اغوا کرلیتے ہیں- بعض عرب و فلسطینی اور خود اسرائیلی رپورٹوں کے مطابق اسرائیل نے 24مئی 2007ء کو انتخابی مہم اور جمہوریت کے نام پر قتل وغارت گری کا بازار گرم کیا اور فلسطینی قومی کونسل کے 43ارکان اور تین سابق وزراء کو گرفتار کرلیا- فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کی جانب سے گرفتاری مہم زور شور سے جاری ہے-
 
اسرائیلی فوجی انہیں نابلس ‘جنین ‘ طولکرم ‘ الخلیل ‘ القدس ‘ رام اللہ اور دیگر مقامات سے ان کے گھروں سے اغوا کرلیتے اور بغیر کسی الزام کے انہیں جیلوں میں بند کردیتے ہیں- اس طرح اسرائیل نہ صرف فلسطینی قوم کو یرغمال بنالینے کے درپے ہے بلکہ فلسطینی سرزمین ‘ فلسطینی حقوق اور فلسطین سے متعلق تمام بین الاقوامی قراردادوں اور چارٹروں کوبھی اغوا کررہاہے- ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ ابھی کچھ عرصہ قبل ہی اسرائیل نے اریحا جیل سے فلسطینی قومی ورکنگ گروپ کی نہایت اہم شخصیت احمد سعدات کوقریباً200ساتھیوں کے ہمراہ اغوا کرلیا اور اپنے عقوبت خانوں میں منتقل کردیا-
 
اس وقت جب ہم تھوڑا پیچھے مڑ کر دیکھتے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ گرفتار اور اغوا کرنے کی پالیسی غاصب صہیونی طاقت نے اپنے قیام کے روز اول سے ہی اختیار کررکھی ہے اور اس کی ہر حکومت نے فلسطینی عوام کے خلاف اس جارحانہ و سفاکانہ عمل کو روا رکھاہے ‘ جن کو یا تو مقدمہ چلائے بغیر یا سرسری مقدمہ کے بعد عقوبت خانوں میں طرح طرح کی انسانیت سوز سزائیں اور خلاف قانون عقوبتیں مسلسل دی جاتی ہیں- شروع ہی میں وزیر دفاع موشے دیان نے اغوا و گرفتاری اور سرسری مقدمے کی کارروائی پر تبصرہ کرتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ فلسطینی قیدی اسرائیلی جیلوں سے اپاہج اور معذور ہوکر نکلیں گے جو اپنی قوم اور اپنے معاشرے پر بوجھ بن جائیں گے- اس پالیسی پر 1987ء اور 1993ء کے انتفاضہ کے دوران خاص طور پر عمل کیا گیا اور مغربی کنارے و غزہ پر قبضہ کے دوران ساڑھے سات لاکھ سے ساڑھے آٹھ لاکھ باشندوں کو گرفتار کرکے انہیں جسمانی طور پر معذور بنایاگیا- حقیقت یہ ہے کہ اس طرح کے اسرائیلی جرائم کا سامنا فلسطینیوں کو نہیں بلکہ فلسطینی وطن اور سرزمین کو ہے جس کی کھلےعام چوری کی جا رہی ہے ‘ گرفتاریاں عمل میں لائی جا رہی ہیں اور اس کا بے خوف و خطر اغوا کیا جا رہا ہے-

ان تمام دہشت گردیوں‘ بین الاقوامی قوانین کی پامالیوں اور ظلم وبربریت پر مبنی کارروائیوں کے بعد وہ گلے پھاڑ کربے شرمی سے کہتے ہیں کہ فلسطینی ہی دہشت گردہیں ‘ وہی قتل عام اور اغوا کیا کرتے ہیں ‘ دنیا اور بین الاقوامی برادری کے لئے اب کیسے ممکن رہاہے کہ وہ ان بے بنیاد دلائل و شواہد کو نظر انداز کریں اور بین الاقوامی قرار دادوں سے تجاہل عارفانہ برتیں؟اب کس طرح عالم عرب کے لئے ممکن رہاہے کہ وہ تماشائی بنا رہے اور انیسویں صدی عیسوی کے وسط سے جدید دور کی اسلامی تحریکوں کا اسلام کو فعال بنانے میں بڑا اہم رول رہاہے-
 
ان ہی تحریکوں نے ان اداروں کو متحرک وفعال بنایا ہے ‘ ان ہی اصلاحی تحریکوں نے اسلامی ثقافت کو عصر حاضر سے ہم آہنگ بنایا اور اسلام نے عصر حاضر کے درمیان پل تعمیر کیا اور اس مفروضہ کو غلط ثابت کیا کہ جدت کاری سیکولرازم کے ساتھ مربوط ہے- آج ہمیں واضح طور پر نظر آ رہا ہے کہ جدت کاری کا عمل عالم اسلام میں مختلف انداز سے آگے بڑھ رہاہے مگر سیکولرازم کا کوئی وجود نہیں ہے- اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ عالم عرب و عالم اسلام ہی کے اندر نہیں بلکہ بیشتر جگہوں سے سیکولر ازم رخصت ہو رہاہے اور اس کے بے لگام الحادی نظریہ کو مسترد کیا جا رہاہے اور سیکولر ازم کے ردعمل میں اسلام پسندی کو قبول عام حاصل ہو رہاہے اور جدت پسندی کو، جو عصر حاضر کا تقاضا ہے، گلے سے لگایا جا رہا ہے –

مختصر لنک:

کاپی