پنج شنبه 01/می/2025

سابق فلسطینی وزیر خارجہ ڈاکٹر محمودالزہار کا انٹرویو

جمعرات 18-دسمبر-2008

حماس امت مسلمہ کے لیے امید کی کرن بن چکی ہے- حماس نے ایسے مشکل حالات کا سامنا کیا ہے جو کسی اسلامی تحریک نے نہیں کئے-

مزاحمت صرف اسلحہ اٹھانے کا نام نہیں بلکہ اسلحہ اٹھانا مزاحمت کا حصہ ہے- مغربی کنارے کو ان لوگوں کے ہاتھوں میں نہیں جانے دیں گے جو امریکی و اسرائیلی ڈکٹیشن لیتے ہیں – بعض یورپی ممالک نے ذرائع ابلاغ سے دوررہ کر حماس سے رابطے کئے ہیں-

ہم انتظار کریں گے کہ مسئلہ فلسطین کے متعلق نئی امریکی انتظامیہ کیا رویہ اختیار کرتی ہے؟ ان خیالات کا اظہار سابق فلسطینی وزیر خارجہ اور حماس (اسلامی تحریک مزاحمت) کے سینئر رہنما ڈاکٹر محمود الزہار نے مرکزاطلاعات فلسطین سے انٹرویو میں کیا – جس کا متن قارئین کے پیش خدمت ہے –

ڈاکٹر صاحب، سب سے پہلے تو ہم آپ کو حماس کے 21ویں یوم تاسیس کے موقع پر مبارک باد پیش کرتے ہیں اور اس حوالے سے پوچھنا چاہیں گے کہ آج سے بیس سال قبل حماس کہاں کھڑی تھی اور اب کہاں ہے؟ مختصراً بتائیے گا کہ تحریک نے کون سے مراحل طے کئے ہیں؟

جواب :تحریک کا آغاز مٹھی بھر لوگوں نے کیا تھا جو آج انسانوں کاسمندر بن چکی ہے- انتفاضہ اول کے وقت حماس میں شامل افراد کی تعداد صرف ایک ہزار تھی جبکہ آج فلسطین کی 60 فیصد آبادی حماس کی حامی وکارکن ہے-
 
شروع میں ذرائع ابلاغ میں حماس کا ذکر تک نہیں آتا تھا لیکن آج اس کے ذکر کے بغیر کسی ٹی وی چینل یا ریڈیو سٹیشن کا خبر نامہ مکمل نہیں ہوتا- حماس کے رہنما غیر معروف تھے آج یہ قیادت عالمی سطح پر جانی پہچانی جاتی ہے- حماس کے نظریات سے کوئی واقف نہیں تھا آج اس کی فکر کا مطالعہ کیا جاتا ہے- حماس صرف ایک مزاحمتی تحریک تھی لیکن اب وہ امت مسلمہ کے لئے امید کی کرن بن چکی ہے-

حماس نے انتخابات میں حصہ لیا اور حکومت بنائی ، تحریک کے لئے یہ ایک اہم موڑ ہے لیکن بعض ناقدین کے خیال میں حماس نے انتخابات میں حصہ لے کر خود کشی کی ہے، آپ اس بارے میں کیا کہیں گے؟

جواب :حماس فلسطینی عوام کی حقیقی آواز ہے- حماس اب بہت بڑی تحریک میں تبدیل ہوچکی ہے جو پوری فلسطینی اراضی میں پھیل چکی ہے – حماس ایک یونیورسٹی ہے- ایک اسکول ہے، ایک سوچ ہے اور ایک ادارہ ہے- اس کی ترقی فطری ترقی ہے- حماس نے کامیابیاں حاصل کیں تو مخالفین کواس کی کامیابیاں گراں گزریں- حماس کی موجودگی میں دوسری جماعتیں سکڑنا شروع ہوئیں تو حماس کے خلاف گھیرا تنگ کرنا شروع کردیاگیا- اس کے کارکنان پر تشدد کیا گیا-
 
انہیں گرفتار اور شہید کیا گیا- ان تمام حالات کے باوجود حماس نے سوچ سمجھ کر انتخاب میں حصہ لیا- معلوم تھاکہ ہمیں بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا- ہم نے عوام کی خدمت کی خاطر اور مسئلہ فلسطین کی حفاظت کے لئے انتخابات کے معرکے میں حصہ لیا- انتخابات میں حصہ لینا بہت بڑا چیلنج تھا-

حکومت کے تجربے سے  آپ نے کیا سیکھا ہے ؟

جواب :حماس نے 100فیصد استفادہ کیا – ہم حکومتی اداروں اور وزارتوں میں داخل ہوئے- جن کے بارے میں ہم کچھ نہیں جانتے تھے- اب ہمارے پاس سرکاری افراد ہیں – اہم سرکاری مشینری کو چلا رہے ہیں- ہمارے پاس اب تجربہ ہے –

مزاحمت اور تعمیری کام میں ربط ایک بہت بڑا چیلنج تھا – آپ اس چیلنج کا مقابلہ کرنے میں کس حد تک کامیاب ہوئے ہیں؟

جواب :ہم نے انتظامی امور بڑے شفاف طریقے سے سرانجام دیئے ہیں- ہم مزاحمت اور انتظامی امور کو ساتھ ساتھ لے کر چلنے میں کامیاب ہوئے ہیں- ہم یہ سمجھتے ہیں کہ مزاحمت صرف اسلحہ اٹھانے کا نام نہیں ہے بلکہ اسلحہ اٹھانا مزاحمت کا حصہ ہے- تحریک کی سوچ انسانوں کے دماغوں میں گھومتی ہے- اب یہ سوچ ٹی وی ہے،ریڈیو ہے ، یونیورسٹی ہے اور ادارہ ہے- مزاحمت میں بہت تبدیلی آئی ہے- پتھر سے شروع ہونے والی مزاحمت میزائل تک پہنچ چکی ہے- جنگ بندی کے دوران اسرائیلی خلاف ورزیوں کے جواب میں صہیونی ٹھکانوں پر 77میزائل اور 170راکٹ داغے گئے-

بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ حماس کی پالیسیوں میں تبدیلی  چکی ہے – وہ اپنے عہد سے پھر چکی ہے  آپ اس کا کیا جواب دیں گے؟

جواب :میں یہ پوچھنا چاہوں گا کہ حماس میں کیا تبدیلی واقع ہوئی ہے؟ مزاحمت کی نوعیت میں تبدیلی آئی ہے- مزاحمت نے ترقی کی منزلیں طے کی ہیں- مثال کے طور پر انسان پہلے جانور پر سوار ہوتاتھا پھر اس نے ترقی کی اور بیل گاڑی پر سوار ہوا- پھر اس نے ترقی کی اور گاڑی پر سوار ہوا پھر اس نے ترقی اور جہاز پر سوار ہوا- حماس میں تبدیلی نہیں آئی بلکہ اس نے ترقی کی منزلیں طے کی ہیں- اگر حماس نے انٹرنیٹ کااستعمال کیا ہے تو یہ تبدیلی نہیں بلکہ ترقی ہے-

 آپ اوسلو معاہدے کے تحت بننے والی اتھارٹی کا کیوں حصہ بنے؟ آپ حکومت چھوڑ کر صرف مزاحمت پر ہی توجہ کیوں نہیں دیتے ؟

جواب :ہمارے بارے میں یہ کہنا کہ ہم کرسی کے طلب گار ہیں یہ ایک دھوکہ ہے جو فلسطینی عوام کو دینے کی کوشش کی جارہی ہے- ہم نے عوام کی خدمت اور ہر مسئلہ فلسطین کی حفاظت کی خاطر کرسی قبول کی ہے- ہم ایک ملک سے دوسرے ملک کا سفر کرتے ہیں اور فلسطینی عوام کی خاطر سرمایہ لاتے ہیں- ہم اپنی قوم کے بیٹوں کے لئے سرمایہ لاتے ہیں جس میں فتح کے بیٹے بھی شامل ہیں- ہم نے سابقہ حکمرانوں کی طرح اپنی جیبیں نہیں بھرلی- مخالفین لوگ چاہتے ہیں کہ ہم ختم ہوجائیں حماس ختم ہوجائے- الشیخ احمد یاسین کی زندگی میں انہیں نظربند کیے رکھاگیا لیکن وہ شہید ہو کرافضل بن گئے- عبدالعزیز رنتیسی زندگی بھر قید و بند کی مشقتیں کاٹتے رہے لیکن جب وہ اس دنیا سے چلے گئے تو افضل بن گئے- میں یہاں پر قر ن پاک کی  یت کی یاد دہانی کرانا چاہتاہوں جس میں کہاگیاہے کہ ’’تمہارا بھلا ہوتاہے تو ان کو برا معلوم ہوتاہے اور تم پر کوئی مصیبت آتی ہے تو یہ خوش ہوتے ہیں -‘‘

حماس کا آپ کیسے تجزیہ کریں گے ، کیا وہ اسلامی تحریکوں کے لئے ایک نمونہ ہے جس کے نقش قدم پر چلا جائے؟

جواب :حماس کا تجربہ بڑا کامیاب رہا ہے- اس کی دلیل ٹی وی چینلوں پر ہونے والے تجزیے اوراسلامی رہنمائوں کی آراء ہیں- سب نے حماس کے تجربے کی تعریف کی ہے- حماس نے مشکل حالات میں فلسطینی عوام کی اس طرح قیادت کی جس کی مثال عالم اسلام میں نہیں ملتی- حماس نے ایسے مشکل حالات کا سامنا کیا جس کا سامنا کسی اسلامی تحریک نے نہیں کیا ہوگا- تمام مشکل حالات اور بڑے بڑے چیلنجز کے باوجود اللہ کے فضل و کرم سے ہم نے بہت کامیابیاں حاصل کی ہیں-

بعض لوگوں کا خیال ہے کہ حماس کی مقبولیت میں کمی واقع ہوئی ہے-حقیقت حال کیا ہے؟

جواب :جب کوئی اس طرح کی بات کرتا ہے تو مجھے بڑی خوشی محسوس ہوتی ہے- اگر انتخابات ہوتے ہیں تو ان لوگوں کی خوش فہمی دور ہوجائے گی- حماس دوبارہ پہلے سے کہیں زیادہ اکثریت سے کامیاب ہوگی کیونکہ ہم نے قوم کو کامیاب پروگرام دیا ہے-

مصر کی ثالثی میں قاہرہ میں فلسطینی جماعتوں کے درمیان باہمی مذاکرات کی ناکامی کے بعد اب دوبارہ بات چیت کا امکان ہے اور معاملات کس طرف جا رہے ہیں ؟

جواب :اس کا کچھ جواب نہیں دیا جاسکتا- ہمارے خیال میں باہمی بات چیت کا کوئی نعم البدل نہیں ہے لیکن ہم مغربی کنارے کو ان لوگوں کے ہاتھوں میں نہیں کھیلنے دیں گے جو اسرائیلی اور امریکی ڈکٹیشن لیتے ہیں- ہم کسی کو اجازت نہیں دیں گے کہ وہ فلسطین کا کوئی حصہ فروخت کرے-

حماس کے اسلامی ممالک سے تعلقات کیسے ہیں،یورپی ممالک سے بھی حماس کے رابطوں کی خبریں ہیں ؟یورپی ممالک سے تعلقات کی کیا نوعیت ہے ؟

جواب :ہم امت مسلمہ کا حصہ ہیں- ہمارا یقین ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت حماس کی حامی ہے- حماس ایک مقبول تحریک ہے- وہ مسلمانوں کے مفاد کی سیاست کرتی ہے- جو فلسطینیوں کی حمایت اور مدد کرتاہے ہم اس کو خوش آمدید کہتے ہیں اور جو مدد نہیں کرنا چاہتا اس کے خلاف کچھ نہیں کہتے-

رہاسوال یورپی یونین سے تعلقات کی نوعیت کے متعلق، تو بعض یورپی ممالک نے ذرائع ابلاغ سے دوررہ کر ہم سے رابطے کئے ہیں – ذرائع ابلاغ سے دور رہ  کر ان کے رابطہ کرنے کی وجہ امریکہ کا خوف ہے- جن یورپی ممالک نے ہم سے رابطے کئے ہیں وہ ہم سے بات چیت کرنا چاہتے ہیں- وہ ہمارا موقف سننا چاہتے ہیں- یورپی ممالک سے ہماری ملاقاتیں حماس کے مفاد میں تھیں- جن کے مثبت نتائج نکل سکتے ہیں-

نو منتخب امریکی صدر باراک اوباما کے متعلق حماس کا کیا موقف ہے؟

جواب :میں اس بارے میں کسی تفصیل میں نہیں پڑنا چاہتا- باراک اوباماکے متعلق حماس انتہائی محتاط موقف ہے- ہم دیکھو اور انتظار کروکی پالیسی پرعمل کررہے ہیں-  آگے دیکھیں کہ نئی امریکی انتظامیہ کا کیا رویہ ہے-

کہا جارہاہے کہ آج کل حماس کے اسلامی جہاد سے تعلقات سرد مہری کا شکار ہیں، اس حوالے سے  آپ کیا کہیں گے؟

جواب: آپ کے قول کے برعکس ہمارے اسلامی جہاد سے تعلقات بہت مستحکم ہیں- ہمارے درمیان محبت اور احترام کا رشتہ ہے- ہمارے تعلقات تمام مزاحمتی گروپوں سے اچھے ہیں- حالیہ دنوں میں اسلامی جہاد سے تعلقات میں جتنی گرم جوشی رہی ہے وہ پہلے کبھی نہیں تھی-

فلسطینی صدر محمود عباس کی اتھارٹی اور اسرائیل کے درمیان مذاکرات کا انجام کیا ہوگا؟

جواب :مذاکرات فلسطینی صدر کی حکمت عملی ہے- مذاکرات کے علاوہ ان کے پاس کوئی کارڈ نہیں بچا ہے- ہم کہتے ہیں کہ مذاکرات ہدف کے حصول کا ذریعہ ہونا چاہیے- بذات خود مذاکرات ہدف نہیں ہیں- ہمارے خیال میں مذاکرات سے اگر ہدف حاصل نہیں ہوتا تو اسے ترک کردینا چاہیے-

مغربی کنارے میں حماس جن حالات سے گزررہی ہے اس بارے میں  آپ کیا کہیں گے ؟

جواب:مقبوضہ مغربی کنارے میں حماس کے لیے حقیقت حال بہت تلخ ہے لیکن یہ صورت حال مثبت ہے کیونکہ لوگوں نے ہتھیار اٹھانے اور نہ اٹھانے کے نتائج کے درمیان موازنہ کرلیا ہے- جن لوگوں نے مزاحمت ترک کردی ہے قابض افواج مغربی کنارے کی گلیوں میں لوگوں کے سامنے انہیں شہید کررہی ہے-
 
اس میں فتح اور شہداء اقصی بریگیڈ کے لوگ بھی شامل ہیں- جن مجاہدین کو غیر مسلح کردیا گیا ہے وہ یہودی  آبادکاروں کے لیے شکار بن گئے ہیں- الخلیل میں یہودی آبادکار فلسطینیوں کے گھروں کو جلا کر راکھ کا ڈھیر بنا رہے ہیں- غیر مسلح کئے جانے کا انجام عوام کے سامنے ہے-

2008ء کا سال حماس کے لئے کیسا رہاہے؟

جواب :2008ء حماس کے لئے بہت سخت تھا لیکن جس قدر مشکلات تھیں اسی قدر حماس کے کارکنان میں حوصلے اور عزم و استقلال میں اضافہ ہوا – مستقبل کے حوالے سے بات کی جائے تو مستقبل ہمارا ہے- مستقبل اسلام کا ہے – اسلام صرف حماس کا نام نہیں ہے- اسلامی بیداری حقیقی بیداری ہے – مسلمانوں کے پاس کرہ ارض کا 27فیصد حصہ ہے- مسلمان دنیا کا تہائی حصہ ہیں- سرمایہ دارانہ نظام ناکام ہوچکا ہے- آج تک اسلامی نظام کبھی ناکام نہیں ہوا-

مختصر لنک:

کاپی