طویل سفر قلیل مدت میں طے کرنا حماس کی بیدار مغز قیادت ہی کا خاصہ ہے، اسلامی تحریک مزاحمت (حماس) کا قیام 1987ء میں عمل میں آیا- شیخ احمد یاسین شہید اس کے بانی اور چیئرمین تھے، شیخ احمد یاسین شہید گیارہ سال مسلسل اور وقفے وقفے سے کئی برس تک اسرائیلی جیلوں میں قید رہے لیکن معذور ہونے کے باوجود جیل کی سلاخیں ان کے پختہ عزائم کو کمزور نہ کرسکیں-
ان کی جلائی ہوئی شمع آج نہ صرف فلسطین کو روشن کیے ہوئے ہے بلکہ عالم اسلام کے گم شدہ راستوں کی نشاندہی بھی کررہی ہے- حماس نے ملت اسلامیہ کے مردہ جسم میں روح کیسے پھونکی؟ عالمی صہیونیوں کے ایجنڈے کو کیسے ناکام کیا، وقت کی سپر طاقتوں کو کیسے سرنگوں کیا اور تمام تر مشکلات اورمصائب کے باوجودعوام میں نہ صرف اپنی پذیرائی برقرار رکھی بلکہ مقبول جماعت کیسے بنتی چلی گئی- ان سارے سوالات کے جوابات معلوم کرنے سے قبل ان حالات کا جائزہ ضروری ہے جن کا ان کو سابقہ تھا-
فلسطین میں باقاعدہ یہودی آباد کاری کا عمل 1917ء میں برطانوی وزیر خارجہ لارڈ بلفور کے اعلان کے بعد شروع ہوا، جس میں انھوں نے یہودیوں سے وعدہ کیا کہ وہ فلسطین میں ان کی ریاست قائم کرکے دیں گے- 1924ء میں خلافت عثمانیہ کا خاتمہ ہوگیا، فلسطین پر برطانیہ نے قبضہ کر لیا اسی طرح دیگر عرب ممالک پر مغربی ممالک نے قبضہ کر لیا، وعدے کے مطابق برطانیہ نے اپنی نگرانی میں فلسطین میں یہودی بستیاں بسانا شروع کیں، فلسطینیوں کو فلسطین سے بے دخل کرنا شروع کیا-
مسلمان چونکہ کمزور تھے خلافت ختم ہوچکی تھی، اجتماعی طور پر ان کا کوئی نظام نہیں تھا چاردانگ عالم برطانیہ کا طوطی بولتا تھا- ا س کے سامنے کسی کو پر مارنے کی جرأت نہیں تھی، ایسے میں فلسطینیوں نے برطانوی سامراج کے خلاف 1935ء میں مسلح جدوجہد شروع کی ، عزالدین القسام اورامین الحسینی نے برطانیہ کو سبق سیکھانا شروع کیا مگر اسلحہ اور امداد نہ ہونے کے برابر تھی برطانوی فوج ان کا پیچھا کر رہی تھی آخر کاران کو ایک اجلاس کے دوران شہید کر دیا گیا، ان کی شہادت کی وجہ سے فلسطین میں مزاحمت کامورچہ کمزور ہوا- برطانیہ نے لاکھوں یہودیوں کو فلسطین میں لاکر بسا یا تھااور 1948ء میں اسرائیل کے قیام کا اعلان ہوا، اسرائیل کو برطانیہ ، امریکا، فرانس اور روس نے فوری پر تسلیم کر لیا، یہ تینوں سپر طاقتیں تھیں، اگر یہ کہا جائے کہ اسرائیل سپر طاقتوں کی ناجائز اولاد ہے تو بے جا نہ ہوگا، ان سپر طاقتوں نے اسرائیل کی ہر طرح سے امداد کی جس کی وجہ سے اقوام متحدہ بے بس تھی اور اسرائیل نے فلسطینیوں کا قتل عام جاری رکھا اور صہیونی ایجنڈاتیزی سے تکمیل کی جانب بڑھنے لگا-
لاکھوں فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے نکال باہرکیا گیا، ہزاروں شہید کر دیے گئے، ہرسمت ظلم وجبر کے گہرے بادل چھائے ہوئے تھے- ایسے میں فلسطینیوں نے 1964ء میں فتح تحریک کے نام سے جماعت بنائی جس کا سربراہ یاسرعرفات کو بنایا گیا، اس تحریک کا مقصدفلسطین کو آزاد کرانا تھاابتدامیں اس تحریک نے اچھے کام کیے مگر یہ تحریک سیکولر بنیادوں پر قائم تھی اس لیے اس نے آگے چل کر وہی کام کیا جس کا خطرہ تھا-
طاقت کے نشے میں اسرائیل نے 1967ء میں ایک اور جنگ عربوں پر مسلط کر دی اور نہ صرف مسلمانوں کے تیسرے مقد س مقام قبلہ اول سمیت باقی ماندہ فلسطین پر قبضہ کر لیا بلکہ شام کی گولان پہاڑیوں ، مصر کے علاقے صحرائے سینا، جنوبی لبنان کے علاقے پرقبضہ کرلیا- جس پر مسلمانوں میں سخت بے چینی پیدا ہوئی مگر عملی طور پر مسلمان کچھ نہ کرسکے، البتہ اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی کا قیام عمل میں آیا ، جس کااولین مقصد قبلۂ اول کو آزاد کرانا تھا-
اسرائیل نے 1982ء میں جنوبی لبنان پر حملہ کر دیا، جس میں سینکڑوں فلسطینی شہید ہوئے اور یاسرعرفات کو جنوبی لبنان چھوڑنے پر مجبور کر دیا گیا اور وہ اپنے ساتھ تیس ہزار فلسطینیوں کو لے کر تونس چلے گئے ، جوں ہی وہ لبنان سے نکلے اسرائیلی فوج نے سامنے سے اورپیچھے سے جنوبی لبنان میں صابرہ اورشتیلا کے مہاجر کیمپ پر حملہ کر کے تین ہزار فلسطینیوں کو 36گھنٹوں میں شہید کیا، جو تاریخ کا بدترین سانحہ تھا- اس سانحہ کے بعد فلسطین کے اندر اور باہر شدید مایوسی پیدا ہوئی- اسرائیل نے اس مایوسی کا فائدہ اٹھایا- فلسطینی مہاجر کیمپوں میں زندگی کے دن گن رہے تھے ان کے پاس کوئی پروگرام نہیں تھا، نوجوان تعلیم سے دور ہور ہے تھے، غربت کا دوردورہ تھا-
مایوسی کے اس گھٹاٹوپ اندھیرے میں روشنی کی ایک کرن شیخ احمد یاسین شہید کی صورت میں سامنے آئی وہ فلسطین کے اندر مزاحمت کسی نہ کسی انداز سے جاری رکھے ہوئے تھے، وہ اخوان المسلمون کے ساتھ وابستہ تھے، اخوان نے سامراجیوں کے خلاف تاریخی جدوجہد کی، شیخ احمد یاسین نے اسرائیل کے خلاف فلسطینی مزاحمت کو منظم کرنے کے لئے فلسطین کے اندر متحرک نوجوانو ں کو جمع کیا اور اپنے کام کو آگے بڑھایا، انھوں نے مہاجر کیمپوں میں مشکلات کا شکار فلسطینیوں کی فوری مدد اور انہیں اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے لئے تعلیمی ادارے قائم کیے فلاح عام کے لیے انھوں نے خدمت کے ادارے قائم کیے ، نوجوانوں کو اس کام میں شامل کیا خواتین کو بھی ان کے حلقوں میں کام کرنے کو کہا، جو انھوں نے چیلنج سمجھ کر قبول کیا، اس مرحلے میں فلسطینی اسرائیل کے خلاف مزاحمت بھی جاری رکھے ہوئے تھے- اگر چہ وہ پتھر وں سے جاری تھی-
شیخ یاسین احمد شہیدنے تمام انفراسٹرکچر مکمل کرنے کے بعد 15دسمبر 987ء کوحماس کے قیام کا باقاعدہ اعلان کیا، شیخ احمد یاسین شہید نے تعلیم ، صحت، مزاحمت اور رفاہی کاموں کو ایک ساتھ کرنے کا عزم کیا، حماس کی فکر چونکہ اسلامی تھی اس لیے فلسطینی عوام نے اس جماعت کو اپنا نجات دھندہ خیا ل کیا اور اس میں جوق در جوق شامل ہونے لگے- اسرائیل اس وقت تک خود کو ناقابل تسخیرخیال کیا کرتا تھا لیکن حماس کے عسکری ونگ نے اسرائیل کے ان علاقوں میں بھی جاکر فدائی کارروائیاں کیں جن کے بارے میں اسرائیل کا کہنا تھا کہ وہاں کوئی چڑی بھی پر نہیں مار سکتی لیکن حماس کے عسکری ونگ کی کارروائیاں اسرائیل پر بجلی بن کر گریں اور اس کایہ دعوی پانی کا بلبلہ ثابت ہوا، فدائی کارروائیاں جاری رہیں، اسرائیل جواکھنڈ اسرائیل کا منصوبہ بنائے ہوئے تھا –
اس کا یہ خواب چکناپور ہوگیا، ناقابل شکست قابل شکست میں بدل گیا، اسرائیل نے حماس کے خلاف طاقت کا پھر پور استعمال کیا حتی کہ ا یٹمی اسلحہ تک استعمال کیا، ہزاروں افراد کو حماس کے ساتھ منسلک ہونے کی وجہ سے گرفتار کیا گیا، ان کو شہید کیا گیا، حماس کو ناکام کرنے کے لیے خواتین تک کے ساتھ ظلم روا رکھا گیا خواتین کو گرفتار کر کے جیلوں میں ڈالا گیا، تاکہ فلسطینی مزاحمت سے باز آ جائیں-
حماس نے ایک طرف جیلوں میں جانے والوں کے لواحقین کی امدادکی اور ان کے بچوں کی دیکھ بحال کے ساتھ ساتھ جیل سے قیدیوں کی رہائی کے لیے منظم بنیادوں پر کام کیا، جیل میں فلسطینیوں پر ہونے والے مظالم کو بے نقاب کیا اور ان کی رہائی کے لیے قانونی کی اور اسرائیلی فوجیوں کے خلاف کارروائیاں کیں جس میں وہ کافی حد تک کامیاب رہے، اسرائیل نے حماس کے اس کام کو دیکھ کر ان کی قیادت کو نشانہ بنا نا شروع کیا مگر حماس کا کام اس حد تک منظم ہوچکا تھا کہ اب اس کے نیٹ ورک کو توڑنا اسرائیل کے بس میں نہیں تھا،
سرائیل نے مایوس ہوکر 1993ء میں یاسرعرفات کے ساتھ اوسلو معاہد ہ کیا، اس معاہدے کا مقصد اس کے سوا
کچھ نہیں تھا کہ حما س کی کمر توڑ دی جائے اور اس کام کے لیے یاسرعرفات کو مہر ہ بنایا جائے، یاسرعرفات نے جب سے لبنان چھوڑا تھا تب سے ان کے اندر بھی بہت سی تبدیلیاں رونما ہوچکی تھیں، وہ بھی عربوں کے کردار کی وجہ سے کافی مایوس تھے، انھوں نے معاہدہ کیااور اپنے ان ساتھیوں کے ہمراہ فلسطین آئے جن کو تیونسی گروپ کہا جاتا تھا-
اس گروپ نے اپنے اہداف کے مطابق حماس کے خلاف کارروائیاں کیں مگر فلسطینی عوام حماس کے ساتھ تھے- اس لیے یہ گروپ جلد ہی بے نقاب ہوگیا اور عوام میں نفرت کی نگاہ سے دیکھا جانے لگا، اسرائیل اس منصوبے میں بھی بری طرح ناکام ہو ا، شیخ احمد یاسین نے اعلان کیا کہ ہم اپنی بندوقوں کا رخ صرف قابض اسرائیل کی طرف رکھیں گے، انھوں نے اپنی جماعت کے لوگوں سے کہا کہ ’’ پ کو اکسایا جائے گا، مشتعل کیا جائے گا اس موقع پر آپ نے صبر سے کام لینا ہے اور اپنی بندوق صرف قابضین پر اٹھانی ہے‘‘- دوسری طرف سے کافی مشتعل کرنے کی سازش ہوئی مگر حماس کی طرف سے ردعمل نہ ہونے کی وجہ سے عوام کے اندر ان کے خلاف نفرت پھیلتی تھی اور وہ خود ہی بدنام ہوجاتے تھے-
امریکا اور اسرائیل نے مل کر فلسطینیوں کے خلاف باہم لڑائی کا خوف ناک منصوبہ بنایا تھا جس کو شیخ احمد یاسین نے ناکام بنادیا- جس پرامریکا اور اسرائیل نے شیخ احمد یاسین کو راستے سے ہٹانے کی منصوبہ بندی کی – ان کا مقصد یہ تھا کہ ان کی شہادت کے بعدفلسطینیوں کے درمیان لڑائی کرانا آسان ہوجائیگا، حماس کے پاس قیادت بھی نہیں رہے گی، اور حماس کی اپنی صفوں کے اندر انتشار پیدا ہوجائیگا، منصوبے کے عین مطابق شیخ احمد یاسین کو شہید کر دیا گیا، ان کے جانشین ڈاکٹر عبدالعزیزالرنتیسی کو بھی 22دنو ں کے وقفے سے شہید کر دیا گیا اور اسرائیل نے کہا کہ اب اس کا کام آسان ہوجائے گا مگر حماس کی قیادت نے اسرائیل کے تمام کے تمام منصوبے ناکام بنا دیے-
حماس کے عسکری ونگ نے مزاحمتی کارروائیوں کے ذریعے دوسروں ملکوں سے نقل مکانی کرکے اسرائیل آنے والے یہودیوں میں نمایاں کمی کرا دی، اسرائیل آنے والے یہودی واپس نہیں جاتے تھے مگر اس میں بھی ریکارڈ اضافہ ہوا، صرف روس واپس جانے والے یہودیوں کی تعداد دو لاکھ تھی، اسی طرح دیگر ممالک کی طرف بھی یہودی واپس جانے لگے، کاروبار میں ریکارڈ کمی آئی اسرائیل کے اندر درجنوں کارخانے بند ہوئے، ان میں بیشترابھی تک بند ہیں، حماس نے ٹیکنالوجی کے میدان میں ریکارڈ کامیابی حاصل کی ، القسام میزائل تیار کیا جس کا اسرائیل کے راڈار آج تک کھوج نہیں لگا سکے کہ یہ کہاں سے داغا جاتاہے، یہ ٹیکنالوجی کے میدان میں بہت بڑی کامیابی تھی جو حماس کے عسکری ونگ نے حاصل کی-
سیاسی میدان میں جب مغربی جمہوریت کے مطابق انتخابات ہوئے تو حماس نے میدان ما رلیا اور فلسطین کی سب سے بڑ ی پارلیمانی جماعت بن گئی، اسرائیل اور امریکا نے نتائج تسلیم نہ کیے، جس کی وجہ سے امریکا جمہوریت کے حوالے سے بھی بے نقاب ہوا، امریکا اور اسرائیل جو جمہوریت کا پرچا کررہے تھے، ان کی جمہوریت کے دعوی کا پول کھل گیا کہ وہ درحقیقت کتنے جمہوریت پسند ہیں –
اب گزشتہ دو سال سے امریکا اور اسرائیل نے غزہ اور فلسطین کی ناکہ بندی کر رکھی ہے کہ شاید اس سے فلسطین کے عوام تنگ آکر حماس کی حکومت کو ختم کرانے کے لیے مظاہرے کریں گے اور ان مظاہروں کا بہانہ بنا کر اسرائیل اور امریکا کود پڑیں گے اور یہاں سے حماس کو ختم کریں گے، دو سال گزرنے کے بعد جب سروے کرایا گیا تو عوام نے پہلے سے زیادہ حماس پر اعتماد کا اظہار کیاجس سے امریکا اور اسرائیل کے عزائم خاک میں مل گئے-
دنیا پر حکمرانی کے عالمی صہیونی ایجنڈے کو حماس نے ناکام بنادیاہے، اسرائیل کی ناکامی دراصل امریکا کی ناکامی ہے، دنیا پر واضح ہوچکا ہے کہ دنیا پر حکمرانی صرف عدل کے ساتھ ہی قائم ہوسکتی ہے، ظلم پر کھڑا نظام اور ملک جلد یابدیر انجام کو پہنچ جاتے ہیں، اب نہ اسرائیل کی وہ دہشت ہے اور نہ امریکا اپنی مرضی کے پٹھو مسلط کر سکتاہے، ملت اسلامیہ میں بیداری کی لہر پیدا ہوئی ہے، جس کا سہرا حماس کے سر ہے-