اس فیصلے کے بعد آئندہ مہینوں میں یورپی یونین اور اسرائیل کے درمیان پہلی کانفرنس کے انعقاد کا راستہ کھل گیا ہے- ممکنہ طور پر 2009ء کے وسط میں یہ کانفرنس ہوگی اور جمہوریہ چیک، یورپی یونین کی صدارت کرے گا- یورپی یونین کے اجلاس میں غور ہو گا کہ یورپی یونین سیکورٹی اور دفاعی پالیسی سے منسلکہ شہری منصوبوں اور اس کے مشن میں نمائندے بھیجے-
جمہوریہ چیک حکومت کے افسران نے نشاندہی کی ہے کہ یورپی یونین اور اسرائیلی تعلقات کو مستحکم کرنے کا اقدام جمہوریہ چیک کے یورپی یونین کی صدارت کے دوران کے اہم ترین اقدامات میں سے ایک ہوگا- جمہوریہ چیک فرانس کے بعد یورپی یونین کی صدارت کا منصب جنوری 2009ء میں سنبھال لے گا-
غیر اخلاقی فیصلہ:
یہ غیر اخلاقی فیصلہ غیر متوقع طور پر سامنے آیا ہے- اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ یورپی یونین اخلاقیات اور اعلی کردار کی مظہر ہے بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسرائیل نازی ریاست کے طور طریقوں پر عملدرآمد کرتا چلا آرہا ہے اور اس اقدام کا اس کے سوا کوئی مقصد نہیں ہے کہ اسرائیل کی رضامندی حاصل کی جائے اور سیاسی عدم بلوغ کا ثبوت دیا جائے- حقیقتاً یہ بات سمجھنا بہت مشکل ہے کہ یورپی یونین نے پہاڑ جیسی غلطی کیوں کی، اس کے حق میں ایک دلیل دینا بھی ممکن نہیں ہے-
اسرائیل مغربی کنارے اور مشرق بیت المقدس میں فلسطینی اراضی پر ناجائز تسلط اور دستبرد کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے اور ’’زمین چرانے‘‘ کے اس سلسلے کا مقصد صرف یہ ہے کہ ’’صرف یہودیوں کے لیے کالونیاں‘‘ تعمیر کی جاسکیں اور فلسطینیوں کو ان کی سرزمین سے بے دخل کردیا جائے- زمینی طور پر ملحق اور قابل عمل اسرائیلی ریاست کے قیام کے لیے جو مدہم ترین امکانات موجود ہیں یہ اقدام اس کو بھی معدوم کرنے کے لیے ہے-
عرب املاک اور اراضی کو قانونی طریقوں سے اپنے تسلط میں لانے کے لیے بھی اسرائیل نے اپنی کوششیں تیز تر کردی ہے تاکہ مشرقی بیت المقدس کو فلسطینی ریاست کا دارالحکومت بنانے کا خواب ہرگز ہرگز شرمندۂ تعبیر نہ ہوسکے- مغربی کنارے میں اسرائیلی حکومت نے یہودی دہشت گردوں اور ٹھگوں جنہیں عرف عام میں ’’آباد کار‘‘ قرار دیا جاتا ہے نے فلسطینی شہریوں کو ہراساں کرنے اور ان کی اراضی پر تسلط جمانے کے سلسلے میں ایک بار پھر تیزی کا مظاہرہ کیا ہے- جنوبی مغربی کنارے کے شہر الخلیل (Hebron) میں بربریت کے حالیہ مظاہرے میں جسے اسرائیلی راہنماؤں نے بذات خود ’’نسل اجاڑنے والا منصوبہ‘‘ قرار دیا وہ اس سرطان کی نشاندہی کررہا ہے جو جنگ عظیم دوم سے قبل جرمنی میں اپنے اثرات دکھاتا رہا تھا-
غزہ کی پٹی میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کے اظہار کے لیے الفاظ موجود نہیں ہیں- اسرائیل پندرہ لاکھ غزہ کے باشندوں کے خلاف ’’نسل کشی‘‘ کے پروگرام پر بتدریج عملدرآمد کررہا ہے اور اس ظلم و زیادتی میں قومی اور عالمی سطح پر دیگر کردار بھی سرگرم عمل ہیں- نجانے کیوں اسرائیل نے اس سے آنکھیں بند کرلی ہیں-
ہم ایک ایسے ’’اجتماعی قتل عام‘‘ کی بات کررہے ہیں ہیں جو ہماری آنکھوں کے سامنے جاری ہے اور یہ قتل عام ان کے بچے اور ان کے پوتے نواسے کررہے ہیں کہ جو خود ’’ھولوکاسٹ‘‘ کا شکار ہے- یہ بات درست ہے کہ گیس چیمبر اور انسانوں کو بھوننے والے غزہ میں موجود نہیں ہیں تاہم غزہ کے بوڑھوں اور بچوں کو ہر روز مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ طبی سہولیات سے محروم رہیں- گندہ پانی پئیں اور غزہ کی پٹی پر دو برس سے زائد عرصے سے عائد ناکہ بندی کی وجہ سے جو مسائل پیدا ہوئے ہیں اس کے نتائج کا سامنا کریں- غزہ وہ علاقہ ہے جسے دنیا کی سب سے بڑی ’’اوپن ائیر جیل‘‘ قرار دیا جاسکتا ہے-
اگر یورپ یہ سمجھتا ہے کہ غزہ کے باشندوں کو بھوکا رکھنے میں اسرائیل برحق ہے تو یورپ اور مغرب کو تیسری ریخ اور نازی ازم کے جرائم کی مذمت کا سلسلہ بند کردیں ورنہ یورپ کو یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ ’’ھولوکاسٹ‘‘ کو وہ اس لیے برا سمجھتے ہیں کیونکہ اس کا شکار بننے والے ’’یہودی‘‘ تھے-
دیگر الفاظ میں یورپ اور مغرب کو یہ اعلان کردینا چاہیے کہ اگر ھولوکاسٹ کا شکار بننے والے غیر یہودی ہوتے تو انہیں اس پر کوئی اعتراض نہ ہوتا میں یہ سارے سوالات اس لیے اٹھا رہا ہوں کیونکہ یورپی یونین غزہ میں ہونے والے واقعات سے یکسر غافل نظر آرہی ہے- لوگوں کی پوری کی پوری نسل کو ناکہ بندی کے ذریعے موت کے گھاٹ اتارا جارہا ہے اور غزہ کے لوگوں کا جرم صرف یہ ہے کہ انہوں نے ایسی جماعت کو منتخب کیا ہے جس نے یہودی نازیت کو قبول کرنے سے انکار کردیا ہے-
عربوں کی توہین:
اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ یورپی یونین کی جانب سے اسرائیل سے بہتر تعلقات بنانے کا فیصلہ ’’ماڈریٹ‘‘ عرب حکومت کے لیے توہین ہے کہ جو یہ سوچتے ہیں کہ خود اسرائیل کے آگے جھکنے اور اپنے عوام کو اسرائیلی حکومت کے آگے جھکانے سے یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اس اقدام سے یورپ کے دارالحکومتوں میں شہرت اور مقبولیت حاصل کرلیں گے ان حکومتوں اور حکمرانوں کے لیے یورپی یونین کا فیصلہ ’’بیدار ہو جاؤ‘‘ پیغام کے مترادف ہے- تاہم یہ بھی واضح ہے کہ یہ ’’ماڈریٹ عرب‘‘ راہنماء، عزت، وقار، قومی اعزاز اور ضمیر نامی چیزوں سے یکسر ناآشنا ہیں-
مقبوضہ مغربی کنارے میں فلسطینی اتھارٹی کے راہنماء محمود عباس نے اپنی ماتحت ملیشیا کو حکم دیا کہ ہزاروں فلسطینیوں کو گرفتار کریں اور تشدد کا نشانہ بنائیں- اس میں متحرک مجاہدین کی مزاحمتی جماعتیں بھی شامل ہیں او اسرائیل کے ساتھ پرامن رہنے کی خواہش مند جماعتیں بھی شامل ہیں اور اس اقدام کا مقصد صرف یہ ہے کہ ان اسرائیلی لیڈروں سے ’’اچھے چال چلن‘‘ کا سرٹیفیکیٹ حاصل کرلیا جائے جو بذات خود ’’مصدقہ جنگی مجرم‘‘ شامل ہیں-
حالیہ مہینوں میں امریکی سرمائے سے تربیت حاصل کرنے والی اور امریکی تنخواہوں پر چلنے والی عباس ملیشیا نے مغربی کنارے میں پھیلی ہوئی درجنوں خیراتی انجمنوں اور اداروں کو نشانہ بنایا اور ان کے کام کرنے پر پابندیاں فی الفور عائد کردیں- عباس ملیشیا نے یہ کارروائی صرف اس لیے کی تاکہ کم از کم اسرائیل اور بش انتظامیہ تک یہ پیغام پہنچایا جاسکے کہ ہم ’’دہشت‘‘ کو کچلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں-
عباس ملیشیا کے راہنماؤں میں سے ایک نے یہاں تک کہہ دیا کہ اگر آباد کاروں نے ہم پر حملہ کیا تو ہم ان پر جواب میں حملہ نہ کریں گے- کوئی بھی معقول شخص یورپی یونین یا دنیا والوں سے یہ کس طرح امید کرتا ہے کہ اپنی عزت نفس اور عوامی اعتماد سے محروم لوگوں کو عزت بخشیں گے-
حقیقت یہ ہے کہ جہاں تک فلسطینی اتھارٹی کا تعلق ہے یورپی یونین صحیح انداز میں کام کرتی رہی ہے- چند مہینے پہلے فلسطینی اتھارٹی کے اعلی ملٹری کمانڈروں میں سے ایک نے بتایا کہ ’’ہم (فلسطینی اتھارٹی اور اسرائیل) اتحادی ہیں، ہمارا دشمن مشترک ہے‘‘ ان کا اشارہ ’’حماس‘‘ کی طرف تھا-
اچھا اگر اسرائیل فلسطینی اتھارٹی کا اتحادی ہے تو اسرائیل کی مدد کرنے سے فلسطینی اتھارٹی کو فائدہ ضرور پہنچنا چاہیے-یہی بات مصر کے بارے میں بھی کہی جانی چاہیے- مصر کی آبادی آٹھ کروڑ ہے جس کو ایک ایسے حکمران نے نااہل بنادیا ہے کہ جسے ہر لمحہ اس کی فکر ہے کہ مجھے امریکہ، اسرائیل اور یورپی یونین تسلیم کرلیں- مصری عوام تسلیم کریں نہ کریں-
یہ ایسا حکمران ٹولہ ہے کہ جو غزہ کی پٹی پر نازی طرز کے اسرائیلی تسلط کو اس لیے تقویت پہنچا رہا ہے کہ تاکہ وائٹ ہاؤس سے رخصت ہونے والے صدر اور رخصت ہونے والی بش انتظامیہ کی خوشنودی حاصل کرسکیں- محمود عباس ایک ایسی حکومت کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ جس کے بارے میں امریکی شہریوں کی اکثریت کا خیال ہے کہ اس حکومت کے فیصلے کو تاریخ کی ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا جائے گا-
سعودی حکمرانوں نے ’’مکالمہ بین المذاہب‘‘ کانفرنسوں کا آغاز کررکھا ہے تاکہ اسرائیل کے لیے مسلم ممالک میں نرم گوشہ پیدا ہوسکے، غزہ کے حاجیوں کو حج کی ادائیگی کے لیے اسرائیل نے سعودی عرب آنے نہ دیا- اس کا ان کے نزدیک کوئی کردار نہیں ہے-عظیم عرب شاعر حسین ابن ابی سلمہ نے 1450 سال پہلے کہا تھا کہ ’جو اپنی عزت نہیں کرتا، اس کی عزت بھی نہیں کی جاتی-‘‘