اسرائیلی عدالت نے 8 یہودی نوجوانوں کو نازیوں کی طرزپر حملے کرنے کے جرم میں قید کی سزا سنائی ہے جبکہ ان نوجوانوں کے خلاف مقدمہ ایک ایسے ملک میں انقلابی تبدیلی کا مظہر ہے جو ہولوکاسٹ کے بعد یہودیوں کے لئےایک جنت رہا ہے.
تل ابیب کی ضلعی عدالت کے جج زوی گرفینکل نے سولہ سے انیس سال کی عمر کے آٹھ لڑکوں کومسلسل ایک سال تک غیر ملکیوں،انتہا پسندکٹڑ یہودیوں اور بے گھر افرادکو خوفزدہ کرنے کے لئے حملوں کے جرم میں ایک سے سات سال تک قید کی سزا سنائی ہے.عدالت نے کہا ہے کہ گروپ عربوں پر حملوں کی بھی منصوبہ بندی کررہا تھا.
آٹھوں نوجوان لڑکے اور ان کے والدین چند سال پیشتر سابق سوویت یونین سے ترک وطن کر کے اسرائیل آئے تھے اور عدالتی دستاویز کے مطابق انہیں اسرائیلی معاشرے میں خود کو ایڈجسٹ کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑاہے جسکی وجہ سے وہ گینگ کی شکل میں مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہو گئے.
مقدمے کے مطابق انہوں نے انٹرنیٹ پرنازی جرمنی کے حکمران ایڈولف ہٹلرکی حمایت کی عکاسی کرنے والے ویڈیو کلپس بھی انٹرنیٹ پر پوسٹ کئے تھے.ان میں سے ایک نوجوان ہولوکاسٹ میں بچ جانے والے جوڑے کا پوتا ہے.
ان نوجوانوں نے اپنے بعض حملوں کی وڈیو فلم تیارکی اوراسے انٹرنیٹ پر پوسٹ کردیا.ان پر جو الزامات لگائے گئے ہیں،ان میں ایک صومعے میں نازیوں کی علامت سویستکاس کی پینٹنگز بنانا اور ہٹلر کی سالگرہ منانے کی منصوبہ بندی کرنا شامل ہے.
یاد رہے کہ قریباًدس لاکھ یہودی 1990ء میں کمیونزم کے زوال کے بعد سابق سوویت ریاستوں سے نقل مکانی کرکے اسرائیل آگئے تھے جنہیں مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں بسایا گیا ہے.ان میں سے بعض اسرائیلی سیاست اور صنعت کے میدان میں نمایاں ہوکر ابھرے ہیں جبکہ بیشتر ابھی تک صہیونی معاشرے میں خود کو مربوط کرنے کے لئے کوشاں ہیں کیونکہ صہیونیوں کے مذہبی حکام ان میں سے ہزاروں افراد کو تو یہودی ہی تسلیم نہیں کرتے.