اسرائیل کے ساتھ دوستی کا مطلب، فلسطین پر اس کے قبضے، اس کی ہمہ وقت عسکری تیاری کی غیر مشروط حمایت، خطے میں اس کی برتری کو استحکام دینا اور اس کی فوجی مہمات میں اس کا ساتھ دینا، اس کی مقبوضہ علاقوں میں پرتشدد کارروائیوں سے چشم پوشی کرنا ہے- وہ اگر کسی امن ڈائیلاگ کو مسترد کرے یا اس میں بیٹھ کر اسے سبوتاژ کرے تو اس پر اس سے پرسش نہ کی جائے، اگر کوئی یہ ناز برداری نہیں کرسکتا تو وہ اسرائیل کے دوستوں کی فہرست میں شامل نہیں- اس حوالے سے دیکھا جائے تو متعدد امریکی صدور نے اسرائیل کے ساتھ دوستی نباہی ہے تاہم جارج ڈبلیو بش نے تو اخیر ہی کردی-
اسرائیل کے ساتھ دوستی کا جو معیار وہ قائم کرگئے ہیں اب آئندہ شاید ہی کوئی اس پر پورا اترے کیوں کہ ایک خوش گمانی سی ہے کہ دنیا رواں صدی کے آئندہ برسوں میں اب شاید اس قدر بدنصیب نہ رہے جتنی آغاز کے ان آٹھ برسوں میں رہی، ممکن ہے وہ باقی 92 برسوں کا کفارہ ادا کرچکی ہو-
بات اسرائیل کے ساتھ بش کی دوستی کی ہورہی تھی- اسرائیل کے مؤقر روزنامہ Hearets میں ایک مضمون شائع ہوا ہے جس میں مضمون نگار نے لکھا ہے کہ دنیا میں سوائے اسرائیل کے شاید ہی کوئی ملک ہو جو ایک ایسے شخص (بش) پر لعن طعن سے نہ کرے جس نے دنیا اور حتی کہ خود اپنی قوم کو بھی مصیبت میں ڈالے رکھا-
اسرائیل نے جب لبنان پر جارحیت کی تو یہ صدر بش ہی تھے جنہوں نے اس جارحیت کی پشت پناہی کی- یہ وہی ہیں جو فلسطینی علاقوں میں یہودی بستیوں کی تعمیرات کی حوصلہ شکنی سے گریزاں رہے- وہ درپردہ ایران پر بمباری کے لیے اسرائیل کی پیٹ تھپتھپاتے رہے- انہوں نے تل ابیب پر کبھی دبائو نہیں ڈالا کہ وہ امن مذاکرات میں پیش رفت کرے یا انہیں تقویت دے- صدر بش نے اسرائیل کو بڑھاوا دینے کے لیے شام کو خوف زدہ کرنے اور اسے دھمکانے کا سلسلہ بھی جاری رکھا- جب اسرائیلی فوج نے غزہ کا محاصرہ کیا تو بھی صدر بش نے اسے ہلہ شیری دی اور حماس حکومت کے بائیکاٹ میں بھی اسرائیل کا ساتھ دیا حالانکہ کہ حماس حکومت خالصتاً جمہوری انداز میں منتخب ہو کر برسراقتدار آئی تھی-
مضمون نگار گیڈئین لیوی لکھتے ہیں ’’یہ وہ عوامل ہیں جن کے باعث ہم اسرائیلی، امریکی صدور سے محبت رکھتے ہیں اور ان سب میں صدر بش ہمارے لیے مقام احترام پر کھڑے ہیں کیونکہ ہماری خوشی کے لیے وہ ہر حدعبور کرنے پر تیار رہتے تھے- وہ ہمیں رقوم دیتے رہے، جدید ترین آلات و اسلحہ سے لیس رکھتے رہے اور ہمارے ہر عمل پر ہمیں داد دیتے رہے-‘‘ مضمون نگار اسی رو میں رکے بغیر کہتے ہیں ’’انہوں نے ہم سے دشمن کی طح دوستی نباہی- وہ امن کے دشمن رہے اور امن سے دشمنی، اسرائیل سے دشمنی ہی تو ہے-‘‘
باراک اوباما ایک انتہائی طاقت ور صدر کے طور پر صدارت سنبھالنے والے ہیں- انہیں امریکہ کے دونوں ایوانوں میں اکثریت حاصل ہے-
ان کے بیانات سے ایسا لگتا ہے کہ وہ اسرائیل کی اس طرح حمایت نہیں کریں گے جو ان کے پیش روئوں کی روایت رہی ہے- مضمون نگار توقع رکھتا ہے کہ مشرق وسطی میں مثبت کردار ادا کرنا ہی امریکہ کی اسرائیل کے ساتھ مخلصانہ اور سچی دوستی کا اظہار ہوگا- توقع کی جاتی ہے کہ اوباما اپنے کہے کے مطابق ایران کے ساتھ براہ راست مذاکرات کریں گے- وہ غزہ کا محاصرہ ختم کرانے کے لیے اسرائیل پر زور ڈالیں گے اور حماس کا بائیکاٹ توڑیں گے- وہ تل ابیب اور دمشق میں صلح کرائیں گے، ان کی مخاصمتیں ختم کرانے میں اپنا کردار ادا کریں گے- فلسطینیوں کے مسائل حل کریں گے-
لیوی توقع رکھتے ہیں کہ اوباما فلسطین پر اسرائیلی قبضہ ختم کرانے اور وہاں سے یہودی بستیاں ختم کرانے میں اسرائیل پر دبائو ڈالیں گے اور سب سے بڑی بات جو بہترین دوستی کا تقاضا ہے وہ یہ ہے کہ اوباما اسرائیل کی اس حوالے سے مدد کریں گے کہ اسرائیل اپنی مدد آپ کرنے کے لائق ہو جائے اور اس بار دوستی کا معیار جانچنے کا یہ ہی انداز ہونا چاہیے-
باراک حسین اوباما جب سے منتخب ہوئے ہیں تب سے اسرائیل میں کچھ بے چینی پائی جارہی ہے- وہاں کے سیاسی حلقوں میں شکوک و شبہات کا اظہار کیا جارہا ہے کہ اوباما شاید ان کے رخصت ہونے جارہے مربی جیسے نہ ہوں اور بہت ممکن ہے کہ بہت سے ایسے معاملات میں بے رخی برتیں جن میں صدر بش پر خود سپردگی کی کیفیت طاری ہو جایا کرتی تھی-
اسرائیل کا حقیقت پسند طبقہ صدر بش کی دوستی کو اسرائیلی اہل سیاست کی نگاہ سے نہیں دیکھتا- وہ جانتا ہے کہ اسرائیل خطے میں مسلسل حالت جنگ میں ہے جس سے پوری ریاست ایک Tension کی کیفیت میں ہے- وہ اپنے آس پاس ہونے والے ہر اقدام کو شک و شبہ کی نظر سے دیکھتی ہے جس کی وجہ سے اس کا اپنا ہر اقدام مخاصمت پر مبنی ہوتا ہے- وہ اپنے ہمسایوں کے درمیان ایک دڈائمی خطرے سے دوچار ہے خواہ اس کی یہ سوچ خود فریبی پر مبنی ہو لیکن اس صورتحال میں رہنے سے اسرائیل کے اندر رہنے والے یہودیوں کی نفسیات علیل ہوئی جاتی ہے اور وہاں مریضوں کے ہجوم کا حجم بڑھتا جارہا ہے-
اس کیفیت کا ازالہ نہ کیا گیا تو ممکن ہے پوری قوم ذہنی عوارض کا شکار ہو جائے- کچھ اسی طرح کی کیفیت اسرائیل کے صید زبوں حال فلسطین کی بھی ہے- فلسطینی اپنے حقوق سے کسی طرح بھی پسپا ہونے کو تیار نہیں اور اسرائیل کے ان اقدامات سے وہاں اسرائیل کے خلاف نفرت کی جوالہ ابل رہی ہے- وہاں کی نئی نسل اگر اسرائیل کے وجود کو نیست و نابود کرنے پر تلی ہوئی ہے تو یہ ایک فطری جذبہ ہے اسرائیل، فلسطینی علاقوں میں روزانہ درجنوں افراد کو قتل اور ان کی املاک کو تباہ کررہا ہے تو ایسے میں کوئی فلسطینی اسے گل دستے تو پیش نہیں کرے گا-
اسرائیل کے ہمسائے ممکن ہے اس سے خوف محسوس کرتے ہوں اور خاموش رہتے ہوں لیکن کیا چاروں طرف سے گھری ہوئی بلی بالآخر حملہ کرنے پر مجبور نہیں ہو جاتی- اطراف کے عرب اگر برملا اسرائیل سے نفرت کا اظہار نہ کرپارہے ہوں تو اس کا مطلب امن تو ہرگز نہیں- تنگ آمد، بہ جنگ آمد- اسرائیل کو یاد رکھنا چاہیے کہ یہ صدی امریکہ کی صدی نہیں رہے گی لہذا کم زوروں کو بند گلی کی دیوار کی طرف دھکیلنے سے گریز کیا جائے-