انہی مقاصد کیلئے فلسطین میں اسلامی جہاد کی جانب سے خواتین فدائی حملہ آوروں کو بھرپور ٹریننگ دی جارہی ہے- آیئے ہم آپ کو ایک فدائی حملہ کرنے کی نیت رکھنے والی ایک نو عمر فلسطینی خاتون سے تفصیلی بات چیت کا حال سناتے ہیں- اس اٹھارہ سالہ خاتون کو غزہ ہی کے علاقے میں فدائی حملے کی ٹریننگ دی جاچکی ہے- اس کا اصل نام تو کچھ اور ہے تاہم اسے ام انس کے فرضی نام سے پکارا جاتا ہے- ام انس کی حال ہی میں شادی ہوئی ہے-
رپورٹر کے بقول ام انس نے اپنے ماتھے پر سبز رنگ کا کپڑا لپیٹا ہے جس پر شہادت کا کلمہ درج ہے وہ اپنی بات چیت کی شروعات میں کہتی ہے کہ وہ آسماں سے ایک تحفہ بن کر زمین پر آئی ہے اور خدانے انسانوں کی تخلیق اس لیے کی ہے کہ انسان اس کے راستے میں شہید ہو جائیں- ام انس مزید اضافہ کرتی ہے کہ فلسطین کی پوری ملت خدا کی راہ میں جہاد کرنے کے لیے پیدا کی گئی ہے اور اگر ہم اسرائیلیوں کے خلاف صرف پتھر پھینکنے پر ہی اکتفا کریں گے تو پھر ناکامی اور سرخم ہمارے نصیب میں ہوگا لیکن ہمیں اس سے بڑھ کر اقدام کرنے ہوں گے- میز پر موجود تخریب کاری کے مواد سے بھری فدائی جیکٹ جس کے توسط سے یہ نوبیاہتا دلہن زندگی کا خاتمہ کرنا چاہتی ہے اس کا ارادہ زیادہ سے زیادہ اسرائیلیوں کو قتل کرنا ہے-
ام انس کا کہنا ہے کہ آٹھ مہینے قبل میری شادی ہوگئی تو میرے خاوند کو معلوم تھا کہ میں کون ہوں اور کیا ارادہ رکھتی ہوں باوجود اس کے وہ مجھ سے شادی کے لیے راضی ہوئے لیکن شادی مجھے میریے مقصد سے دور نہیں کرسکتی ہے- رپورٹر کے اس سوال پر کہ آپ ابھی حاملہ ہیں کیا اس دوران بھی آپ اپنے مقصد کو پورا کرنے کی کوشش کریں گی؟ جواب دیتے ہوئے ام انس نے کہا کہ میں اپنے بچے کی پیدائش تک انتظار کروں گی اپنے بچے پیدائش کے بعد اپنے جگر گوشے کو اپنے والدین کے سپرد کردوں گی-
ام انس نے مزید کہا کہ میری نیت اور ارادے سے میرے والدین اور بہن بھائیوں کو کوئی علم نہیں- ویسے بھی شہادت پانے کی نیت رکھنے والوں کو اپنے کام چپ چاپ کرنے چاہئیں اور ہمیں اپنے پلان اور پروگراموں کے بارے میں دوستوں تک کو نہیں بتانا چاہیے لیکن کبھی کبھار انہیں ہماری بابت معلوم ہو جاتا ہے اور وہ یقین کرلینے تک شک و شکوک میں مبتلا رہتے ہیں- ام انس نے رپورٹر کو بتایا کہ اپنی موت کے طریقے کا علم ہے لیکن زندگی کے خاتمے کے وقت کے بارے میں اسے علم نہیں وہ تو مصر اور حماس تنظیم کی ثالثی پر قائم کیے جانے والے سیز فائر کے ٹوٹنے کا انتظار کررہی ہے-
ام انس کا کہنا ہے کہ ہم سیز فائر کا احترام کرتے ہیں لیکن اسرائیل غزہ کی پٹی میں امن کے خلاف آگ کو ہوا دے رہا ہے اور اسی بناء پر جہادی گروپ نے اسرائیلی فوجیوں کے مقابلے کے لیے خواتین فدائی حملہ آوروں کو تیار کیا ہے- کیا وہ اپنے ہدف کے حصول کے لیے عام لوگوں کو بھی ہلاک کرنے کے لیے تیار ہوگی؟ اس سوال کے جواب میں ام انس کا کہنا تھا کہ میرا مقصد صرف اسرائیلی فوجیوں کا مقابلہ کرنا اور فوجی خود اکثر ہماری جانب آتے ہیں- وہ کچھ دیگر بعد دوبارہ بولتی ہیں کہ وہ عام اسرائیلی شہریوں کی ہلاکت پر بھی فکر مند نہیں ہوں گی کیونکہ خود اسرائیلی فوجی اور اسرائیلی عوام ہماری سرزمین پر قبضہ کررہے ہیں اور وہ ہمارے بچوں اور عام لوگوں کو اذیت دیتے ہیں- ان کے بچے بڑے ہوں گے ان کے دلوں میں ہمارے خلاف نفرتیں ہیں موجود ہوں گی- فلسطین پر صرف فلسطینیوں کا حق ہے اور ہم اسرائیلی قبضے کے خاتمے کیلئے ہر طریقہ آزمائیں گے-
ایک رپورٹ کے مطابق ایک وقت ایسا تھا تھا کہ جب خواتین فدائی حملہ آوروں کے استعمال کو غیر قانونی اور غیر اسلامی فعل قرار دیا جاتا تھا تاہم یہ سوچ اس وقت تبدیل ہوگئی جب مرد فدائی حملہ آوروں کی صفوں میں شامل افراد کی تعداد گھٹنا شروع ہوگئی اور ان مرد فدائی حملہ آوروں کے خلاء کو خواتین اور نوجوان لڑکیوں نے پر کرنا شروع کیا-
اس طرح کی رسمی تفسیر کے باوجود اسرائیل کے ماحول میں خواتین فدائی حملہ آوروں کے بارے میں خیال زیادہ خوفناک ہوتا ہے- غزہ کے علاقے میں خواتین فدائی حملہ آوروں کو فتوے ملنے کے بعد مذہبی رجحان کے طور پر خواتین فدائی حملہ آوروں کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے-
غزہ کنارے میں قائم علماء کونسل کے سربراہ موان ابوراس نے اس سلسلے میں رپورٹر کو بتایا کہ اسلام میں ایسے فعل حرام ہیں- یہاں تک ایک انسان کو اس بات کی بھی اجازت نہیں کہ وہ خود کو ایک انگلی برابر نقصان پہنچائے لیکن تاریخ میں فدائی حملوں میں خواتین کے اشتراک کی بعض مثالیں موجود ہیں اور ہم مزاحمت کی جنگ میں داخل ہو چکے ہیں-