پنج شنبه 01/می/2025

دنیا بھر میں صہیونیوں کے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لئے موساد کی سرگرمیاں

پیر 3-نومبر-2008

اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد کی شرانگیزیوں سے عرب اور مسلم ممالک کبھی محفوظ نہیں رہے – اس کا دائرہ کار پوری دنیا میں پھیلا ہوا ہے – موساد یہودی پناہ گزینوں کی مخفی تحریکوں کی بھی ذمہ دار ہے، جو شام ‘ایران اور ایتھوپیا کے باہر موجود ہیں –

مغرب اور اقوام متحدہ میں موجود کئی سابقہ کمیونسٹ ممالک میں موساد کے ایجنٹ متحرک ہیں- موساد کاہیڈ کوارٹر تل ابیب میں ہے – 1980ء کے اعداد و شمار کے مطابق اس تنظیم کے اراکین کی تعداد ڈیڑھ ہزار سے دو ہزار کے قریب تھی مگر حالیہ دنوں میں سامنے آنے والے اعداد و شمار کے مطابق اس کے خاص اراکین کی تعداد 35ہزار ہے جن میں سے 20ہزار متحرک ایجنٹ ہیں اور 15ہزار غیر متحرک ایجنٹ ہیں جنہیں ضرورت پڑنے پر کام میں لایا جاتاہے –

تنظیم سے تعلق رکھنے والے ہر فرد کے لئے ضروری ہے کہ عوامی سطح پر اس کی شناخت نہ ہو لہذا موساد کے ڈائریکٹر کے لئے یہ شرط زیادہ کڑی سمجھی جاتی رہی ہے ‘ مگر مارچ 1996ء میں اسرائیلی حکومت نے میجر جنرل ڈینی یاطوم کا شبتائی شادت کی جگہ تقرر کا باقاعدہ اعلان کیا – شبتائی نے 1996ء کے آغاز میں اپنے عہدے سے استعفی دے دیاتھا-اس تنظیم کو عام طور پر مرکزی ادارہ برائے اتحاد ،مرکزی ادارہ برائے حفاظت اور اطلاعات کے طور پر جانا جاتا ہے-

موساد یکم اپریل 1951ء کو وجود میں آئی- اس کو اس وقت کے اسرائیلی وزیراعظم ڈیوڈ بن گورین نے قائم کیاتھا جن کا کہناتھاکہ اس تنظیم کے قیام کا مقصد یہ ہے کہ ہمیں معلوم ہوسکے کہ اسرائیل کے اردگردکیا ہو رہاہے – بظاہر اسرائیلی مفادات کے تحفظ کے لئے بنائی جانے والی یہ تنظیم اس وقت دنیا بھر میں دہشت گردی پھیلانے میں اہم کردار ادا کررہی ہے – اس تنظیم کے آٹھ شعبے ہیں-تاہم اس تنظیم سے متعلق بہت سی باتیں ابھی صیغۂ راز میں ہیں- کولیکشن ڈیپارٹمنٹ اس کا سب سے بڑا شعبہ ہے جس کی ذمہ داری میں بیرون ممالک سرکاری دفاتر اور سفارتخانوں کی جاسوسی شامل ہے- اس شعبہ کے مختلف ڈیسک ہیں اور ہر ڈیسک ایک مخصوص جغرافیائی علاقے کا ذمہ دارہے – دنیا بھر میں پھیلے جاسوس اسے کنٹرول کرتے ہیں سال 2000ء کے آغاز میں موساد نے کولیکشن آفیسرز کی بھرتی کے لئے باقاعدہ اشتہار دیا تھا-

پولیٹیکل ایکشن اینڈ لائسنس ڈیپارٹمنٹ کے نام سے موسادکا شعبہ غیر ملکی خفیہ سروس کے ساتھ دوستی اور سیاسی سرگرمیوں پر نظر رکھتا ہے اوراس کا کام ایسے ممالک جن کے اسرائیل کے ساتھ اچھے تعلقات نہیں ،ان کے ساتھ میل ملاپ بڑھانا ہے تاکہ ان ممالک سے ان کے ایجنٹ مفید معلومات اکٹھی کرسکیں – سپیشل آپریشن ڈویژن کے اہلکار انتہائی حساس قتل کرنے ‘ تباہی و بربادی کی تحریکیں چلانے ‘ پیرا ملٹری اور نفسیاتی جنگ کے منصوبوں پر کام کرنے پر مامور کئے جاتے ہیں –
 
لیپ ڈیپارٹمنٹ نفسیاتی جنگ ‘پراپیگنڈا اور دھوکا دہی جیسے امور پر کام کرتاہے -موساد کا ایک اور شعبہ تحقیق سے وابستہ ہے اور اسے ریسرچ ڈیپارٹمنٹ کا نام دیا گیا ہے جس کی ذمہ داری میں روزانہ کی صورتحال کی رپورٹ ‘ ہفتہ وار اور ماہانہ رپورٹیں تیار کرنا شامل ہیں- یہ شعبہ 15جغرافیائی ذیلی شعبوں (ڈیسک ) میں تقسیم ہے جن میں امریکا ‘ کینیڈا ‘مغربی یورپ ‘ لاطینی امریکا ‘ سابق سوویت یونین ‘ چین ‘افریقہ ،مراکش ‘ الجزائر‘تیونس ‘لیبیا ‘عراق ‘ اردن ‘ شام ‘سعودی عرب ‘متحدہ عرب امارات اور ایران شامل ہیں – ایک ’’نیوکلیئر ‘‘نامی ڈیسک بھی قائم ہے جس کا کام دنیا بھر کے نیوکلیائی ایشوز پر توجہ مبذول کرناہے –
 
ٹیکنالوجی ڈیپارٹمنٹ کا کام جدید ٹیکنالوجی ،جو موساد کے مختلف آپریشنز میں مدد گار ثابت ہوسکتی ہو، حاصل کرناہے – اپریل2001ء میں موساد نے اخبار میں ’’مدد چاہیے‘‘ کے عنوان سے ایک اشتہار شائع کیاتھا جس میں الیکٹرانکس انجینئر اورکمپیوٹر سائنسدانوں سے درخواست طلب کی گئی تھیں جو موساد کے ٹیکنالوجی یونٹ کو چلا سکیں – اسرائیل دنیا بھر کی کئی اہم شخصیات کے قتل کی سازشوں میں ملوث رہاہے –

حماس کے رہ نما خالد مشعل کو بھی موساد نے زہر دے کر قتل کرنے کی کوشش کی تھی‘ اہم فلسطینی رہنمائوں کے قتل میں اس تنظیم کا ہاتھ رہاہے جس میں شیخ احمد یاسین اور یاسرعرفات جیسے اعلی پائے کے لیڈر بھی شامل ہیں- دنیا بھر میں اغوا کی وارداتوں ‘دھماکوں اور سیاسی ہنگاموں کے پیچھے بھی موساد کے ایجنٹ کارفرما ہوتے ہیں –

گزشتہ کچھ عرصہ سے عراق موساد کی سازشی تحریک کا محور بنا ہوا ہے -عراق میں موساد کی کارروائیوں کے حوالے سے بہت سے حقائق سامنے آ چکے ہیں اور اس ملک میں موساد کی بڑھتی ہوئی کارروائیاں کوئی نئی بات نہیں،بلکہ جس وقت صدر بش نے عراق پر حملہ کرنے کا فیصلہ کیاتھا- اس وقت سے اسرائیل عراق میں سرگرم ہے- عراق میں بڑھتی ہوئی خون ریزی اور پر تشدد واقعات کے تعلق سے اخبارات میں جو کچھ شائع ہوتاہے امریکا انہیں القاعدہ یا لسانی و گروہی تصادم کا رنگ دے کر پیش کرتاہے لیکن حالیہ دنوں میں مختلف شواہد کی روشنی میں یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ عراق میں جاری دہشت گردی کی کارروائیوں کے پیچھے اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد کا ہاتھ کارفرما ہے –

موساد کی جانب سے ان کارروائیوں کا جہاں ایک مقصد بے گناہ عراقیوں کو تشدد کا نشانہ بنانا ہے، وہیں دوسری طرف ان عراقی مزاحمتی تحاریک کو بے اثرکرنا ہے تاکہ عوامی اعتماد کو مجروح کیا جاسکے – دلائل اور شواہد کی روشنی میں یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ موساد امریکا کی قبضہ گیر افواج کے اشتراک سے عراق میں زبردست خون خرابہ کررہی ہے کسی ایک گروہ کے خلاف پر تشدد کارروائیاں انجام دے کر موساد دوسرے گروہ میں عداوت کے جذبات بھڑکارہی ہے تاکہ شیعہ سنی آپس میں باہم دست و گریبان ہوجائیں –

موساد عراق میں فرقہ وارانہ آگ بھڑکانے کی پالیسی پر عمل پیرا رہی ہے تاکہ جنگ زدہ ملک میں خانہ جنگی کا ماحول پیدا ہوجائے اور خانہ جنگی کی آگ پورے عراق کو اپنی لپیٹ میں لے لے -اسرائیل اپنے اس اقدام کے ذریعے ایک تیرسے کئی شکار کررہا ہے – پر تشدد کارروائیوں کے ذریعے اسرائیل پہلا مقصد یہ حاصل کرنا چاہتاہے کہ عراق جو تاریخی لحاظ سے اسرائیل کے لئے بھی کافی اہمیت کا حامل ہے، ٹکڑے ٹکڑے ہوجائے – مسلکی اور گروہی تنازعات کو بنیاد بنا کر اس کو منظر سے غائب کردیا جائے – اسرائیل کے لئے عراق کی تقسیم انتہائی اہمیت کی حامل ہے کیونکہ اس کے بغیر نیل سے فرات تک عظیم تر اسرائیلی سلطنت کی تشکیل کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہوسکتا –

سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ آخر کوئی غاصب ملک کس طرح خود مختارملک کی تقسیم کا حق رکھتاہے – امریکا کی اس ضمن میں ساری کوششیں اسرائیل کے لئے ہیں کیونکہ وہ چاہتاہے کہ ہر وہ ملک جو مستقبل میں اسرائیل کے لئے خطرہ ثابت ہوسکتاہے ،اس کو طاقت کے ذریعے ختم کردیاجائے- عراق میں جاری شورش کا تیسرا اہم مقصد یہ ہے کہ عراق پڑوسی ممالک کے خلاف اسرائیلی جاسوسی کا ایک اہم ٹھکانا ثابت ہوگا اورموساد کے اہلکار عراقی سرحدوں میں  بیٹھ کر اس کے پڑوسی ممالک کی جاسوسی کر سکیں گے- خاص طور پر اسرائیل کے دشمن ممالک شام ‘ ایران اور حزب اللہ کے خلاف جاسوسی کی سرگرمیاں ممکن ہوں گی -عراق میں موساد کو سرگرم رکھنے کا یہ ایک اہم مقصد ہے-

انہی وجوہات کی بناء پر اسرائیل عراق میں اپنی سرگرمیوں میں اضافہ کرتا جا رہاہے – کسی بھی تجزیہ نگار کے لئے عراق میں جاری اسرائیل کی وسیع تر سرگرمیوں کا احاطہ کرنا ممکن نہیں -اس کااندازہ اس بات سے لگایاجاسکتاہے کہ اس وقت عراق میں 25سے زائد اسرائیل کی فوجی و اقتصادی کمپنیاں قائم ہیں- دیگر شعبوں میں بالواسطہ طور پر مختلف ناموں سے کام کرنے والی اسرائیلی کمپنیوں کی تعداد حد شمار سے باہر ہے -یہ تمام کمپنیاں موساد کے لئے ڈھال کا کام کررہی ہیں – اس ضمن میں ایک بھارتی اخبار نے لکھاہے کہ عراق میں جاری اسرائیلی سرگرمیوں کی حقیقت تک رسائی کے لئے ماضی کا احاطہ کرنا ضروری ہے – ستمبر2003ء میں ایک عراقی سفارتکار نے تل ابیب میں لگائی گئی پلاسٹک مصنوعات کی نمائش کے موقع پر ٹسفی منطینی نامی اسرائیلی صنعت کار کے ہاں قیام کیا-

عراق پرامریکی یلغار کے بعد سے یہ سفارتکار مسلسل اسرائیل کے دورے کرتارہا ہے – یہ شخص اپنے دوروں میں اسرائیل کے مختلف سیاسی قائدین سے ملاقات کرتا اور ان کے ساتھ مختلف موضوعات پر تبادلہ خیال کرتا تھا- حالیہ دنوں میں اس بات کا انکشاف بھی ہوا کہ مارک زال نامی ایک اسرائیلی وکیل کا،جو اسرائیلی حکومت میں شامل لیکوڈ پارٹی سے قریبی روابط رکھتاہے، عراق میں جاری عالمی سرمایہ کاری پر کنٹرول ہے-

عراقی حکومت سے قریبی روابط رکھنے والی ایک عراقی کمپنی کے مشیر کی حیثیت سے اس کا تقرر عمل میں آیا ہے اسرائیل کی کمپنیوں کے عہدیدار عراق میں مقیم اسرائیلی وکیل مارک زال کے توسط سے اپنی کمپنیوں کی مصنوعات عراق میں کھپت  کے لئے بھیجتے ہیں -اسرائیل عراق میں سیاسی نوعیت کے اہم مقاصد کی تکمیل کے لئے بھی کوشاں ہیں جن میں سب سے اہم عراق  سے اسرائیل تک تیل اور پانی کی پائپ لائن کی تنصیب ہے تاکہ اسرائیل میں پانی اور پٹرول کی قلت پر قابو پایا جاسکے – حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل موساد کے ذریعے دنیا بھر میں اپنے پنجے گاڑنا چاہتاہے تاکہ وہ اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کرسکے-

مختصر لنک:

کاپی