ری پبلکن صدارتی امیدوار جان مک کین کی جانب سے بارک اوباما کے خلاف انتخابات کے آخری دنوں میں ایک تازہ اسکینڈل سامنے لایا گیا ہے جو اوباما کے انتخاب پر اثر انداز ہو سکتا ہے اس اسکینڈل کا موضوع بارک اوباما کے ایک امریکن فلسطینی سے تعلقات ہیں۔
اسکینڈل سے یہ تاثر پھیلانا ہے کہ بارک اوباما فلسطینیوں کے حامی اور یہودیوں کے خلاف ہیں۔ اوباما کے ترجمان کا کہنا ہے کہ بارک اوباما کی جانب سے اسرائیل کی غیر مشروط حمایت اس الزام کی تردید کرتا ہے۔ تفصیلات کے مطابق بارک اوباما کے ایک فلسطینی نژاد امریکی پروفیسر خلیلی سے ایک عرصے سے تعلقات چلے آرہے ہیں اور دونوں کی بیویاں بھی ایک دوسرے سے ملتی رہی ہیں اور ایک تقریب میں دونوں کے درمیان ہونے والی گفتگو بھی ٹیپ پر ہے جو امریکی اخبار ”لاس اینجلس ٹائمز“ نے کسی سے اس وعدے کے ساتھ حاصل کی ہے کہ اسے شائع نہیں کیا جائے گا۔
اس نئے سنسنی خیز اسکینڈل کو انتخابات سے صرف پانچ روز قبل منظر عام پر لانے کا مقصد امریکہ میں اسرائیل دوست ووٹروں کو بارک اوباما کے خلاف کرنا ہے۔ بارک اوباما کے حریف جان مک کین نے مطالبہ کیا ہے کہ اس ٹیپ کے مندرجات منظر عام پر لائے جائیں۔
اوباما کی جانب سے وضاحت کی گئی ہے کہ فلسطینی نژاد امریکی شہری سے بارک اوباما کا میل جول یا ملاقات کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ وہ اسرائیل یا یہودیوں کے مخالف ہیں بلکہ اسرائیل کی واضح اور غیر مشروط حمایت پر مبنی بیان اس الزام کی تردید کرتاہے۔ لہٰذا یہ الزام محض بدگمانی پیدا کرنے کیلئے لگایا گیا ہے۔ ادھر یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ خود ریپبلکن امیدوار سینیٹر جان مک کین نے بھی فلسطینی نژاد امریکی پروفیسر خلیلی کے گروپ کے ایک پروجیکٹ کیلئے سرکاری مالی امداد کے حق میں ووٹ دیا تھا۔
اسکینڈل سے یہ تاثر پھیلانا ہے کہ بارک اوباما فلسطینیوں کے حامی اور یہودیوں کے خلاف ہیں۔ اوباما کے ترجمان کا کہنا ہے کہ بارک اوباما کی جانب سے اسرائیل کی غیر مشروط حمایت اس الزام کی تردید کرتا ہے۔ تفصیلات کے مطابق بارک اوباما کے ایک فلسطینی نژاد امریکی پروفیسر خلیلی سے ایک عرصے سے تعلقات چلے آرہے ہیں اور دونوں کی بیویاں بھی ایک دوسرے سے ملتی رہی ہیں اور ایک تقریب میں دونوں کے درمیان ہونے والی گفتگو بھی ٹیپ پر ہے جو امریکی اخبار ”لاس اینجلس ٹائمز“ نے کسی سے اس وعدے کے ساتھ حاصل کی ہے کہ اسے شائع نہیں کیا جائے گا۔
اس نئے سنسنی خیز اسکینڈل کو انتخابات سے صرف پانچ روز قبل منظر عام پر لانے کا مقصد امریکہ میں اسرائیل دوست ووٹروں کو بارک اوباما کے خلاف کرنا ہے۔ بارک اوباما کے حریف جان مک کین نے مطالبہ کیا ہے کہ اس ٹیپ کے مندرجات منظر عام پر لائے جائیں۔
اوباما کی جانب سے وضاحت کی گئی ہے کہ فلسطینی نژاد امریکی شہری سے بارک اوباما کا میل جول یا ملاقات کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ وہ اسرائیل یا یہودیوں کے مخالف ہیں بلکہ اسرائیل کی واضح اور غیر مشروط حمایت پر مبنی بیان اس الزام کی تردید کرتاہے۔ لہٰذا یہ الزام محض بدگمانی پیدا کرنے کیلئے لگایا گیا ہے۔ ادھر یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ خود ریپبلکن امیدوار سینیٹر جان مک کین نے بھی فلسطینی نژاد امریکی پروفیسر خلیلی کے گروپ کے ایک پروجیکٹ کیلئے سرکاری مالی امداد کے حق میں ووٹ دیا تھا۔