شنبه 03/می/2025

مسئلہ فلسطین کا ’’یک ریاستی‘‘ حل

ہفتہ 1-نومبر-2008

Peace Now نامی ایک اسرائیلی این جی او نے اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں یہ انکشاف کیا ہے کہ گزشتہ اکتوبر میں جب صدر جارج بش نے اناپولس میں امن مذاکرات کانفرنس منعقد کی تھی اس وقت سے مشرقی یروشلم میں جو تعمیراتی ٹینڈرز جاری ہوئے وہ گزشتہ سال کے مقابلے میں 38 فیصد زیادہ ہیں- 1967ء سے جب اسرائیل نے مغربی کنارہ اور غزہ پر قبضہ کیا تھا اور خاص طور پے 1993ء کے میڈرڈ امن مذاکرات کے وقت سے اسرائیل مشرقی یروشلم میں تقریباً 13 نئی بستیاں تعمیر کرچکا ہے جو کہ ڈھائی لاکھ سے زائد اسرائیلیوں کی جائے رہائش ہے اور اس شہر کے اندر تقریباً اتنا ہی فلسطینیوں کو بسنے کی اجازت دی گئی ہے-

اگر آپ یاد کریں کہ دو ریاستی حل کے بیشتر منصوبے مشرقی یروشلم کو مستقبل کی فلسطینی ریاست کے دارالحکومت کے طور پر دیکھتے ہیں (جبکہ مغربی یروشلم میں اسرائیلی دارالحکومت کو) تو آپ کے لیے یہ سمجھنا آسان ہو جائے گا کہ کیوں اس منصوبے پر فلسطینیوں کا اعتماد ختم ہوتا جارہا ہے؟ ایک دوسری وجہ بھی ہے جس کی بناء پر دو ریاستی حل کی حمایت ختم ہو رہی ہے اور وہ ہے واشنگٹن کا رویہ-

رام اللہ کے حالیہ دورے کے دوران جب امریکی وزیر خارجہ کونڈا لیزارائس کو یہ یاد دلایا گیا کہ فلسطینیوں نے پہلے ہی آمادگی ظاہر کی ہے کہ وہ اسرائیل کے 78 فیصد سرزمین کی واپسی کو اپنا جائز حق تسلیم کرتے ہوئے قبول کرلیں گے تو انہوں نے مبینہ طور پر جواباً عرض کیا ’’78 فیصد تو آپ بھول جائیں، اس وقت جو گفتگو ہو رہی ہے وہ بقیہ 22 فیصد پر ہو رہی ہے-‘‘ پیغام واضح تھا یعنی فلسطینیوں کو اپنی مزید سرزمین سے دستبردار ہونے کے تیار رہنا چاہیے-
 
اسرائیلی بہت دنوں سے مغربی کنارہ کی آباد بستیوں کو جو اس سرزمین کے طویل حصے کا احاطہ کیے ہوئے ہیں اور جن کا دائرہ شمال و جنوب و مشرق و مغرب کے محوروں تک دراز ہے اور جو ہائی ویز اور برقی نیٹ ورکس کی سہولیات سے آراستہ ہیں، اسرائیلی کمیونٹی کی نامیاتی توسیع سے یاد کرتے ہیں- لیکن اسرائیلی تعمیر (Peace Now کے مطابق) گزشتہ سال 550 فیصد بڑھ گئی ہے-

یہ تعمیر اس دیوار جدائی یا رکاوٹ کے ساتھ جو تقریباً مکمل ہے اور اس رپورٹ کے ساتھ کہ جس میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل وادئ اردن کے مشرقی کنارہ کے ساتھ اپنا سیکورٹی کنٹرول باقی رکھنا چاہتا ہے، ایک دوسرا پیغام ارسال کرتی ہے اور وہ یہ ہے کہ اسرائیل اس سرزمین پر ہمیشہ کے لیے قابض رہنا چاہتا ہے- اس مسئلے کو شامل کردیجئے پناہ گزینوں کے مسئلے کے ساتھ جو ابھی تک توجہ کا محتاج ہے- پھر اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں کہ بہت سارے دو ریاستی حل کے سابق حامیان مایوس ہوتے جارہے ہیں-

اس بات کو یادرکھنا اہم ہے کہ فلسطینی قومی تحریک نے محض 20 یا 30 سال پہلے عملی مصالحت کے طور پر دو ریاستی حل کو قبول کرنا شروع کیا تھا- اس بات کو مانتے ہوئے کہ اسرائیل کہیں نہیں جارہا ہے، اعتدال پسند فلسطینیوں نے فیصلہ کیا کہ ان کی بہترین امید اسرائیل کے ساتھ ساتھ ایک ریاست کی ہوسکتی ہے نہ کہ ایک ایسی ریاست کی امید جو اسرائیل کی جگہ ہو-
 
اس کے باوجود پندرہ سال کا عرصہ مذاکرات میں گزر گیا اور کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکلا- لہذا اس میں حیرانی کی کوئی بات نہیں کہ جس تجویز کو عملی سمجھا گیا تھا اس پر سے فلسطینیوں کا اعتماد ختم ہو رہا ہے-

چنانچہ پیش رفت کا فقدان، زمین پر موجود کسی شک و شبہ سے بالاتر اسرائیل کی توسیع پسندانہ حقیقت اور تحریک حماس کی مقبولیت میں اضافہ جیسے عوامل نے شاید ہی کسی کے لیے یہ گنجائش چھوڑی ہو کہ وہ فلسطین کے لیے کسی مثبت مستقبل کی جستجو کرے، سوائے اس کے کہ پرانے نظریہ کو تقویت بخشی جائے جس کی رو سے ایک ایسی دو قومی، سیکولر اور جمہوری ریاست کا قیام عمل میں آئے جہاں یہودی اور عرب باشندے مساوات کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ زندگی گزاریں-

بعض لوگ مثلاً وہ دانشوروں اور کارکنان جنہوں نے مل کر فلسطینی اسٹراٹیجی گروپ تشکیل دیا ہے (جس نے حال ہی میں عرب اخبارات میں اسے موضوع گفتگو بنایا ہے) یک ریاستی منظر نامے کی بات کرتے ہیں جس کا مطلب اسرائیل کو اس کی توسیع پسندانہ پالیسی کے خطرات سے متنبہ کرنا ہے- اس گروہ کی اب بھی یہ ترجیح ہو گی دو ریاستی حل ابھر کر سامنے آئے- دوسرے بہر حال یک ریاستی حل کی جانب لوٹ رہے جیسے فتح جو فلسطین کی مین اسٹریم قومی تحریک ہے اور جس نے پہلے یعنی ساٹھ کی دہائی کے اواخر میں اس حل کو ناپسند کیا تھا-

پہلے گروہ کا خیال ہے کہ ایک ریاستی حل کی تجویز اسرائیلی فیصلہ سازوں کے دماغ میں شاید ہی سما سکے- دوسرا گروہ یک ریاستی حل کو ترجیح دیتا ہے جس کے ذریعے ایک حکومت کی تشکیل ممکن ہو سکے گی جسے فلسطینی اپنی اکثریتی آبادی کی بناء پر لازماً کنٹرول کریں گے- اگرچہ تاخیر سے سہی لیکن وزیر اعظم ایہود اولمرٹ نے بھی اس خطرے کا اعتراف کرلیا- یہ واضح نہیں ہے دوسرے اسرائیلی فیصلہ سازوں نے بھی ایسا کیا ہے- ممکن ہے وہ مسئلے کو بعض انحرافی تدابیر کے ذریعہ معرض التواء میں ڈالنے کی کوشش کریں- مثلاً یہ کہ وہ مغربی کنارہ کی آبادی کے مراکز کو اردن کے کنٹرول میں دے دیں گے-
 
جہاں اسرائیل کی مستقل فوجی نگرانی ہوگی- اس طرح کے حل کی تجویز خود اسرائیل نے ستر کی دہائی میں پیش کی تھی- اس منظر نامے کے مطابق غزہ بھی مصر کی تحویل میں دے دیا جائے گا- لیکن اگر اردن اور مصر کو اس طرح کے بارگراں کے لیے تیار بھی کرلیا جائے اگرچہ وہ اس کے لیے تیار نہیں ہوں گے گھر بھی ان میں سے کوئی بھی تدبیر خطے میں استحکام کے حوالے سے پائیدار ثابت نہیں ہوگی-

یک ریاستی حل کے سنجیدہ حامیان یہ اعتراف کرتے معلوم نہیں ہوتے کہ اس کے حصول میں انسانی آلام و مصائب بہت زیادہ ہیں- جہاں تک خطرے کی گھنٹی بجنے کی بات ہے تو آج سے پچیس سال پہلے اس بات کو محسوس کرلینا چاہیے تھا جبکہ مشرقی یروشلم اور مغربی کنارہ میں یہودی بستیوں کی آبادکاری کا سلسلہ ابھی شروع ہوا تھا-

آج 5 لاکھ سے زائد یہودیوں کے ساتھ جو 1949ء کی Armistice Line  پر رہ رہے ہیں اس عمل کو الٹا پھیرنے میں بہت تاخیر ہو چکی ہے- لہذا یہ وقت ہے عمل کا نہ کہ بیان بازی کا- عملاً اس کا مطلب یہ ہے کہ آئندہ چند ماہ میں دونوں فریق کوئی مناسب معاہدہ کرلیں تاکہ ساتھ زندہ رہ سکیں- اور اس کا مطلب ہے دو ریاستی حل- اسرائیلی اس کے علاوہ کسی دوسرے حل پر راضی نہیں ہوں گے-

بہت سارے فلسطینیوں کا خیال ہے کہ یک ریاستی حل آئیڈیل حل ہوسکتا ہے جس کی صورت میں صہیونی منصوبے کی شکست فاش یقینی ہے اور اسرائیل کی وجہ ایک دو قومی ریاست ہوگی جس پر بالآخر عرب اکثریت حکمراں ہو گی- لیکن اس سے پہلے اس طرح کی چٹانوں سے ٹکرا کر بہت سارے جہاز تباہ ہو چکے ہیں- یک ریاستی حل کا کامیاب ہونا ایک بھاری جنگ کے بعد ہی ممکن ہے جو کہ آئیڈیل بات کے علاوہ کچھ اور نہیں ہے-
نوٹ: مضمون نگار القدس یونیورسٹی کے صدر ہیں-

مختصر لنک:

کاپی