اسرائیل میں نئی مخلوط حکومت کے قیام کے لئے بات چیت تعطل کا شکار ہوگئی ہے اور جمعہ کو ایک الٹرا آرٹھوڈکس پارٹی نے کہا ہے کہ نامزد وزیراعظم زیپی لوینی کی قیادت میں نئی مخلوط حکومت میں شمولیت کے لئے اس کے مطالبات تسلیم نہیں کئے گئے.
الٹرا آرتھوڈکس جماعت شاس نے اعلان کیا ہے کہ وہ زیپی لوینی کی مخلوط حکومت میں شامل نہیں ہوگی.وزیر خارجہ اورنامزد وزیراعظم نئی حکومت کی تشکیل کے لئے لیبر پارٹی کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی ہیں لیکن شاس پارٹی کی حمایت کے بغیرانہیں پارلیمنٹ میں اکثریت حاصل ہونا مشکل ہے.
ان دونوں بڑی جماعتوں کا کہناہے کہ اس وقت ملک پر نئے انتخابات کا بوجھ ڈالنا مناسب نہیں ہوگا لیکن دائیں بازو کی جماعت لیکوڈ پارٹی نئے قومی انتخابات کا مطالبہ کر رہی ہے اوراسے رائے عامہ کے جائزوں میں بھی برتری حاصل ہے.
مخلوط حکومت کے قیام کے لیے زیپی لیفینی کے پا س بہت تھوڑے دن رہ گئے ہیں اور انہوں نے جمعرات کو ایک بیان میں کہا ہے کہ وہ اتوار کو شاس پارٹی کے ساتھ مخلوط حکومت بنانے کے حوالے سے حتمی فیصلہ کریں گی.
لیکن دوسری جانب شاس پارٹی کے ترجمان رائے لخمنوچ نے جمعہ کو ایک بیان جاری کیاہے جس میں انہوں نے کہا کہ ہے کہ ان کا لیفنی کی کادیما پارٹی سے دو بنیادی ایشوز…….مقبوضہ بیت المقدس کی حیثت اورغریبوں کے لئے سماجی بہبود کے پروگرام کے بارے میں کوئی سمجھوتہ نہیں طے پاسکا.
ترجمان کا کہنا تھا کہ ”شاس پارٹی نے صرف دومطالبے کئے تھے ایک یہ کہ اسرائیلی معاشرے میں معاشی طور پر کمزور افراد کی مالی مدد کی جائے اوردوسرا مقبوضہ بیت المقدس کا تحفظ….جوفروخت کے لئے کوئی تجارتی چیز نہیں ہے”.
لخمنوچ نے کہاکہ یہ دونوں مطالبے پورے نہ ہونے کی وجہ سے پارٹی کے روحانی قائد ربی اویدیا یوسف نے مخلوط حکومت کے قیام کے لئے بات چیت جاری نہ رکھنے کا فیصلہ کیا ہے.
اسرائیل اورفلسطینی دونوں بیت المقدس کو اپنا دارالحکومت قرار دینے کادعویٰ کر رہے ہیں اور یہ مشرق وسطیٰ میں امن کے قیام کے لئے جاری بات چیت میں بھی بنیادی مسئلہ ہے.لیکن انتہا پسند یہودیوں کی جماعت شاس مقبوضہ بیت المقدس کی سرزمین پر کسی قسم کی رعایت دینے کو تیار نہیں حالانکہ اسرائیل نے خود اس شہر پر 1967 ء کی جنگ میں قبضہ کیا تھا.
لوینی گذشتہ ماہ کادیما پارٹی کی قائد بننے کے بعد سےمخلوط حکومت کے قیام کے لئے کوشاں ہیں لیکن وہ بوجوہ سیاسی جماعتوں کی حمایت حاصل کرنے میں ناکام رہی ہیں. واضح رہے کہ اسرائیلی وزیراعظم ایہود اولمرٹ بد عنوانی کے الزامات کی وجہ سے اپنے عہدے سے مستعفی ہوگئے تھے اور ان دنوں وہ نگران وزیر اعظم کی حیثیت سے فرائض انجام دے رہے ہیں.
اگر مخلوط حکومت کے قیام کے لئے بات چیت ناکام ہوجاتی ہے تو ایہود اولمرٹ نئی حکومت کے قیام یا پھر انتخابات کے انعقاد تک نگران وزیر اعظم کی حیثیت سے کام کرتے رہیں گے.
تل ابیب یونیورسٹی کے ایک سیاسی تجزیہ کار گدون ڈورن کا کہناہے کہ ”زیپی لوینی الکنسیت کے120 میں سے 60 سے کم ارکان کی حمایت سے بھی حکومت بناسکتی ہیں لیکن اس صورت میں انہیں عرب ارکان پارلیمنٹ کی حمایت کی ضرورت ہوگی جو کادیماپورٹی کے لئے قابل قبول نہیں ہوگا”.