جمعه 09/می/2025

اسرائیل کا سعودی عرب کے امن منصوبہ کو تسلیم کرنے پرغور

منگل 21-اکتوبر-2008

اسرائیلی رہ نما صہیونی ریاست اورعرب دنیا کے درمیان جامع امن کے قیام کے لئے سعودی عرب کی جانب سے پیش کئے گئے امن منصوبہ پر سنجیدگی سے غورکر رہے ہیں.یہ بات اسرائیلی وزیر دفاع ایہود باراک نے اتوار کواسرائیل کے فوجی ریڈیوسے گفتگو کرتے ہوئے کہی ہے.

ایہودباراک کا کہنا تھا کہ اب وقت آگیا ہے کہ پورے خطے میں امن معاہدے کے لئے آگے بڑھا جائے کیونکہ شام اور فلسطینیوں کے ساتھ انفرادی مذاکرات میں کوئی نمایاں پیش رفت نہیں ہوئی.

اسرائیلی وزیر دفاع نے کہا کہ انہوں نے سعودی امن منصوبے پر نامزد وزیراعظم زیپی لیونی سے تبادلہ خیال کیا ہے.تاہم لیفینی کے دفترنے ان کے ایہود باراک کے ساتھ مذاکرات کے بارے میں تبصرہ کرنے سے انکار کیا ہے.

سعودی عرب نے 2002ء میں اسرائیل سے صلح کے لئے امن منصوبہ پیش کیا تھا جس میں کہا گیا تھا اگراسرائیل 1967ء کی جنگ میں قبضہ میں لئے گئےعربوں کے علاقے…….مغربی کنارے ،غزہ کی پٹی،مشرقی بیت المقدس اور گولان کی پہاڑیوں کو …….واپس کردے تو عرب ممالک اسے تسلیم کرنے کو تیار ہیں.عرب لیگ نے گذشتہ سال سعودی عرب کے اس امن منصوبہ کی توثیق کی تھی.

اسرائیل اس منصوبہ کے بارے میں یہ کہہ چکا ہے کہ اس کی بنیاد پر پرمذاکرات ہوسکتے ہیں لیکن اس نے اس کے بارے میں اپنے بعض تحفظات کا اظہار کیا تھا.

باراک کا کہنا تھا کہ سعودی امن منصوبے کے جواب میں ایک جامع اسرائیلی منصوبہ متعارف کرانے کی گنجائش موجود ہے جس کی بنیاد پر پورے خطے میں امن کے قیام کے لئے بات چیت کی جاسکتی ہے.

فلسطینی کابینہ کے سابق وزیراورتجزیہ کارغسان خطیب نے کہا ہے کہ سعودی منصوبہ میں دلچسپی کا اظہاربہت تاخیر سے کیا گیا ہے لیکن اس کے باوجود اس کا خیرمقدم کیا جائے گا.

انہوں نے کہا کہ”وہ اس بات میں پختہ یقین رکھتے ہیں کہ عرب منصوبہ اسرائیل اورعربوں کے درمیان امن کے لئے ایک بہترین فارمولہ ہے اور اس میں اسرائیل اور فلسطینیوں کے جائزمقاصد کی تکمیل کاخیال بھی رکھا گیا ہے”.

اسرائیل کے سبکدوش ہونے والے وزیر اعظم ایہود اولمرٹ نے سعودی منصوبے کا خیرمقدم کیا تھا .اولمرٹ اور ان کے ہمنوا اسرائیلی رہ نماٶں کا کہنا ہے کہ 1967 ء کی جنگ میں قبجہ میں لئے گئے بہت تھوڑے علاقے میں اپنے پاس رکھے جائیں اور باقی علاقے خالی کر دئیے جائیں.

مختصر لنک:

کاپی