یکشنبه 11/می/2025

”امریکی کمانڈر کے بیان نے پوزیشن خطرے میں ڈال دی”:عراقی وزیراعظم

ہفتہ 18-اکتوبر-2008

عراق کے وزیر اعظم نوری المالکی نے امریکی فوج کے کمان داراعلیٰ جنرل رے اوڈائیرنو کے اس بیان میں پر کڑی تنقید کی ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ایران عراقی پارلیمنٹ کے ارکان کو امریکا،عراق سکیورٹی معاہدے کے خلاف ووٹ دینے کے لئے رشوت دینے کی کوشش کر رہا ہے.نوری المالکی کا کہنا ہے کہ امریکی کمانڈر نے یہ بیان دے کر خود ان کی پوزیشن خطرے میں ڈال دی ہے.

عراق میں امریکی فوج کے کمان دار جنرل رے اوڈائیرنونے گذشتہ پیر کو واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہونے والے اپنے انٹرویو میں ایران پر الزام عاید کیا تھا کہ وہ علانیہ اورخفیہ طور پر امریکا اورعراق کے درمیان امریکی فوجوں کی 31 دسمبر کے بعد جنگ زدہ ملک میں تعیناتی برقرار رکھنے کے لئے معاہدے کو نقصان پہنچانے کی کوششوں میں مصروف ہے.

نوری المالکی نے جمعہ کے روزکویتی صحافیوں کے ایک گروپ کو انٹرویو میں کہا کہ ”امریکی کمانڈر نے اس لہجے میں بات کر کے ان کی پوزیشن کے لئے خطرات پید اکردئیے ہیں اور افسوسناک طور پر تعلقات کو پیچیدہ بنا دیا ہے”.

عراق کے سرکاری ٹیلی ویژن پر دکھائے جانے والے انٹرویو میں نوری المالکی نے کہا کہ ”اس شخص،امریکی کمانڈر نے جو کچھ کہا ہے ،اس کے بارے میں وہی بہتر جانتے ہوں گے لیکن سوال یہ ہے کہ وہ کسی ثبوت کے بغیر اس طرح کی بات کیسے کرسکتے ہیں.انہوں نے جو کچھ کہا ،وہ انتہائی قابل افسوس ہے”.

عراقی وزیر اعظم نے جس سخت لب ولہجے میں امریکی کمانڈر کے بیان پر تنقید کی ہے،اس سے عراقی سیاستدانوں اور ایران کے درمیان گہرے تعلقات کی بھی عکاسی ہوتی ہے. وزیراعظم نوری المالکی سمیت عراق کی بہت سی شیعہ سیاسی جماعتوں کے رہ نماٶں کے ایران کے ساتھ خصوصی تعلقات استوار ہیں.

صدام حسین کے دور میں کئی شیعہ رہ نما ایران میں جلاوطنی کی زندگی گزارتے رہے ہیں اور عراق کی سب سے بڑی شیعہ جماعت سپریم کونسل برائے اسلامی انقلاب کی 1980ء کے عشرے میں ایران ہی میں تشکیل ہوئی تھی جبکہ اس کے عسکری ونگ البدر بریگیڈ نے 1980ء سے 1988ء تک لڑی گئی جنگ میں عراق کے خلاف ایران کا ساتھ دیا تھا اور ایرانی فوج کے شانہ بشانہ عراق کے خلاف لڑائی میں حصہ لیا تھا.

عراق کے سب سے بڑے شیعہ رہ نما آیت اللہ علی سیستانی ایران میں پیدا ہوئے تھے اور وہ 50 سال سے زیادہ عرصہ تک ایران ہی میں رہے اور اس کے بعد وہ عراق منتقل ہوئے تھے.

عراق میں امریکی فوج کے سربراہ جنرل رے اوڈائیرنو اپنے انٹرویو میں کہا تھا کہ ”ہم یہ جانتے ہیں کہ لوگوں کے درمیان صدام دور سے باہمی تعلقات چلے آرہے ہیں اور میرا خیال ہے کہ وہ ،ایرانی ان تعلقات کوعراقی ارکان پارلیمنٹ پر اثرانداز ہونے کے لئے استعمال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں”.

تاہم جنرل اوڈائیرنو کا کہنا تھا کہ”ان کے پاس رشوت ستانی کا کوئی ثبوت نہیں ہے لیکن بہت سی انٹیلی جنس رپورٹس میں یہ کہا گیا ہے کہ ایرانی لوگوں کو امریکا عراق معاہدے کے خلاف ووٹ دینے کے لئے رقوم دینے کی غرض سے آرہے ہیں”.

واضح رہے کہ واشنگٹن اوربغدادکے درمیان سکیورٹی معاہدہ طے پانے کی صورت میں 31 دسمبر کے بعدایک لاکھ چھیالیس ہزارکے قریب امریکی فوجیوں کی عراق میں تعیناتی برقرار رہے گی البتہ اس معاہدے پر عمل درآمد سے قبل اس کی عراقی پارلیمنٹ سے توثیق ضروری ہے.

واشنگٹن اور بغداد گذشتہ کئی ماہ سے اس معاہدے کو حتمی شکل دینے کے لئے کام کررہے ہیں لیکن دونوں ممالک کے درمیان امریکی فوجیوں کے انخلاء کے نظام الاوقات اوران کے خلاف عراقی عدالتوں میں مقدمات چلانے کے حوالے سے اختلافات پائے جاتے ہیں جس کی وجہ سے معاہدہ تاخیر کا شکار ہوا ہے.

ایران کا کہنا ہے کہ امریکا خطے میں طویل المیعاد بنیادوں پر قدم جمانے کی کوشش کررہا ہے اورایرانی حکام برسرعام اس سکیورٹی معاہدے کی مخالفت کر رہے ہیں جبکہ امریکا ایران پرعراق کے داخلی امور میں مداخلت اوران ملیشیا گروپوں کوتربیت اور فنڈزمہیا کرنے کے الزامات عاید کرتا رہا ہے جوامریکی فوجیوں پر حملے کرتے رہے ہیں.ایران نے اس الزام کی تردید کی ہے کہ وہ عراق کے داخلی امور میں مداخلت کر رہا ہے یا کسی ملیشیا کی حمایت کر رہا ہے.

مختصر لنک:

کاپی