رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مغربی کنارے خصوصاً بیت المقدس میں یہودی آبادکاریوں کے قیام کا سلسلہ 1967ء میں شروع ہوا تاکہ اس سرزمین میں تبدیلی لائی جاسکے اور زیادہ سے زیادہ فلسطینی اراضی پر اسرائیلی تسلط جمایا جاسکے-
اسرائیل کی کئی حکومتوں نے اس کی کوشش کی کہ نئی آبادکاریاں مسلسل وجود میں لائی جاتی رہیں اور یہ آبادکاریاں اس اراضی پر ہوں کہ جنہیں مختلف حیلوں بہانوں سے فلسطینی قوم سے چھین لیا گیا ہے-
تحقیقی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 1996ء سے چند آبادیوں مثلاً بیطار الیسیت میں 126 فیصد توسیع کی گئی ہے- اس کے لیے ان کسانوں پر حملے شروع کردیے جاتے ہیں کہ جو اراضی کو کاشت کرنا چاہتے ہیں بعد ازاں یہودی آبادکار لوہے کی تار لگا دیتے ہیں اور اسرائیلی حکومت اس پر تسلط جمالیتی-
قابض اسرائیلی حکومت اس اراضی کے اردگرد کے علاقے کو بند ملٹری ایریا قرار دے دیتی ہے اور عملی طور پر یہ اسرائیل کے قبضے میں چلا جاتا ہے- رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ اناپولیس کانفرنس کے اعلامیے کے بعد محسوس ہوتا ہے کہ اسرائیل قابض حکومت کوئی ارادہ نہیں ہے کہ آبادکاریوں کی تعمیر کا سلسلہ روک دے- ہزاروں اراضی کو چھین کر ان پر سڑکیں بنادی گئی ہیں-