محمود عباس اپنی مدت صدارت میں توسیع کے لیے صلاح و مشورے کررہے ہیں- ان کا ارادہ ہے کہ مذاکرات کے بہانے اپنے اقتدار کو مزید طویل دیا جائے جبکہ فلسطینی جماعتوں کا مطالبہ ہے کہ صدارتی الیکشن آئین کے مطابق بروقت ہوں- فلسطینی قانون ساز اسمبلی کے قائم مقام سپیکر ڈاکٹر احمد بحر نے محمود عباس کی مدت صدارت ختم ہونے کے بعد صدر کا عہدہ قبول کرنے کا اعلان کیا ہے-
انہوں نے کہا کہ ’’فلسطینی آئین کے مطابق محمود عباس کی مدت صدارت کے خاتمے کے بعد وہ عبوری صدر ہوں گے- 8 جنوری کی رات کو محمود عباس کی مدت صدارت ختم ہو جائے گی اور آئین کے مطابق انہیں مدت میں توسیع کا اختیار نہیں ہے- یہاں تک کہ پارلیمنٹ بھی ان کی مدت صدارت میں توسیع نہیں کرسکتی- آئین کی خلاف ورزی کرنے کی صورت میں حالات کے ذمہ دار محمود عباس ہوں گے-‘‘
محمود عباس کی مدت ایسے موقع پر ختم ہو رہی ہے جب حالات پیچیدہ ہیں، امریکہ اور اسرائیل میں سیاسی تبدیلیاں آنے والی ہیں اور ان تبدیلیوں کے باعث مشرق وسطی میں قیام امن کی کوششیں جمود کا شکار ہیں، کیونکہ فلسطینی اتھارٹی، اسرائیل اور امریکہ تینوں فریق فیصلہ کن کردار کے مالک ہیں- ان ممالک میں سیاسی تبدیلیوں کے باعث سیاسی تصفیے کی کوششیں کم از کم تین ماہ کے لیے ٹھپ ہوگئی ہیں جبکہ مسئلہ فلسطین کی اہمیت اور ٹکر کے تین اور مسائل عالمی سطح پر گھمبیر ہیں- ان میں اولین مسئلہ عراق کا ہے-
امریکی انتخابات میں جان مکین کی کامیابی کی صورت میں کشیدگی مزید بڑھ جائے گی اور اس کے اثرات فلسطین تک پہنچیں گے کیونکہ وہ مکمل طور پر اسرائیل کے حق میں جانبدار ہیں- باراک اوباما کی کامیابی کی صورت میں انتظار کا مرحلہ شروع ہو جائے گا اور معاملہ لٹک جائے جیسا کہ 1992ء سے 2000ء کے عرصے کے دوران صدر کلنٹن کے دور میں ہوا ہے- دوسرا مسئلہ ایران کا ہے- اگر امریکہ یا اسرائیل یا دونوں مل کر ایران پر حملہ کردیتے ہیں تو مسئلہ فلسطین پس پشت چلا جائے گا-
اگر ایران پر حملہ نہیں ہوتا تو اس بات کا انتظار کرنا پڑے گا کہ نیا آنے والا امریکی صدر اس حوالے سے کیا نئی پالیسی اختیار کرتا ہے- تیسرا مسئلہ قفقاز کا ہے- جارجیا کے مسئلے کا کوئی بھی حل ہو اس بحران نے امریکہ اور یورپ کی دوسرے مسائل سے توجہ ہٹا دی ہے- روس اوسیتیا کی آزادی یا اس کا اپنے ساتھ الحاق کرنے میں کامیاب ہوتا ہے یا ناکام ہوتا ہے، نیٹو کی توجہ اسی علاقے پر مرکوز رہے گی-
عالمی حالات کے اس مختصر جائزے سے واضح ہوتا ہے کہ 2009ء کے آغاز تک کا وقت اسرائیل سے مذاکرات کے لیے بے سود ہے- ضرورت اس بات کی ہے کہ اس فراغت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے فلسطین کے اندرونی مسائل کے حل پر توجہ دی جائے- باہمی مذاکرات کے ذریعے اختلافات دور کرتے ہوئے ایک مؤقف پر پہنچا جائے اور اسی متحدہ مؤقف کی بنیاد پر بین الاقوامی برادری سے تمام بات چیت کی جائے-
اہم سوال اندرونی اختلافات کے خاتمے اور فلسطینی اتحاد تک پہنچنے کا مرحلہ ہے- اس مرحلے تک پہنچنے میں فلسطینی جماعتوں کی ترجیحات رکاوٹ ہیں- فتح کی قیادت پر قابض گروپ کی اولین ترجیح محمود عباس کی مدت صدارت میں توسیع یا تجدید ہے- وہ یہ ہدف فلسطینی سیاسی معاشرے میں انتشار کی قیمت پر حاصل کرنا چاہتا ہے- اس بات کا اشارہ دستور میں موشگافیاں کر کے فلسطینی صدارتی اور پارلیمانی انتخابات کو بیک وقت منعقد کرنے کا کہہ کر گیا ہے-
اس مؤقف کا اظہار صدر محمود عباس نے 14ستمبر 2008ء کو اپنے بیان میں کیا جس کا مطلب ہے کہ صدارتی انتخابات 25 جنوری 2010ء تک ملتوی کردیے جائیں گے- اگر محمود عباس نے صدارتی انتخابات کو 2010ء تک ملتوی کرنے کا اعلان کیا تو داخلی بحران شدت اختیار کر جائے گا کیونکہ حماس کی قیادت نے انتخابات ملتوی کرنے کو حتمی طور پر مسترد کردیا ہے-
یہ بات بھی واضح ہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم اور صدر بش کو محمود عباس کے کمزور ہونے کا اچھی طرح ادراک ہے- وہ محمود عباس کی کمزور پوزیشن سے فائدہ اٹھاتے ہوئے زیادہ سے زیادہ مقاصد حاصل کریں گے- اگرچہ 2008ء کے آخر تک قیام امن کا معاہدہ طے پانا انتہائی مشکل ہے لیکن اگر فلسطینی صدر نے غیر اعلانیہ مذاکرات جاری رکھتے ہوئے امریکی صدر بش کی مدت صدارت کے آخری دنوں میں کسی معاہدے کی اساسیات کا اعلان کردیا تو بہت برا ہوگا-
عمومی طور پر ہر فریق اپنی عوام کے سامنے معاہدہ کی تفسیر اپنی مرضی سے کرے گا- صدارتی ٹیم کی طرف سے محمود عباس کی مدت کے خاتمے کے مسئلے کو پس پشت ڈالنے کی ضرورت پر زور دیا جائے تاکہ وہ معاہدے پر عمل کریں- قیام امن کا معاہدہ اور فلسطینی صدر کی مدت کے مسئلے کو پس پشت ڈالنے کا سیناریو محمود عباس اور فتح کی اس قیادت کے لیے مفید ہے جو اپنے عہدوں کے ہاتھ سے نکلنے سے خائف ہیں کیونکہ صدر کی تبدیلی سے اس گروپ کی مرکزیت کمزور پڑ جائے گی- یہی وجہ ہے کہ یہ گروپ فلسطینی داخلی انتشار کو قبول کرتے ہوئے صدر کی مدت میں توسیع کو قبول کرے گا-
مدت صدارت کے علاوہ دیگر عوامل بھی ہیں جس سے معاملہ مزید پیچیدہ ہوگا- فلسطینی مذاکراتی ٹیم پر امریکہ اور اسرائیل دباؤ ڈالے گا کہ داخلی انتشار سے نکلنے کا واحد حل حماس کا اسرائیل اور فلسطینی اتھارٹی کے درمیان تمام معاہدوں کو قبول کرنا ہے اور ضروری ہے کہ حماس اسرائیل کو تسلیم کرنے کا اعلان کرے- عرب ممالک اس سلسلے میں خفیہ اور غیر اعلانیہ رابطوں کے ذریعے مدد کریں گے بلکہ بات اعلانیہ دباؤ تک بھی پہنچ سکتی ہے- اس دباؤ کی مثال رفح کی راہداریوں کو بند کرنا ہے-
اندرونی اختلافات کے خاتمے کے اور بھی متعدد حل ہیں جن میں صدر محمود عباس کا اپنی مدت صدارت ختم ہونے کے بعد صدر کے عہدے سے علیحدہ ہو کر فلسطینی قانون ساز اسمبلی کے سپیکر یا قائم مقام سپیکر کو 2 ماہ کی مدت کے صدر کا عہدہ سونپنا ہے جو دستور کے مطابق صدارتی انتخابات کرائیں- ماضی میں متعدد بار محمود عباس نے مدت صدارت کے ختم ہونے کے بعد صدر کے عہدے سے علیحدہ ہونے اور انتخابات کرانے کے اشارے دیے ہیں- محمود عباس کے قریبی ساتھی صائب عریقات نے 9 ستمبر 2008ء کو پریس کانفرنس سے خطاب میں ان خبروں کو بے بنیاد قرار دیا جس میں کہا گیا ہے کہ محمود عباس مدت صدارت میں توسیع کرنے کی منصوبہ بندی کررہے ہیں- محمود عباس نے خود 14 ستمبر کو کہا کہ صدر کے لیے دوبارہ امیدوار بننے کا ان کا وقت نہیں رہا-
دوسری طرف ایسے بھی محرکات و اسباب ہیں جس سے محمود عباس کے اقتدار کو طول دینے کے اشارے ملتے ہیں- فلسطینی اتھارٹی کی قانونی کمیٹی نے دستور کی جس طرح تشریح کر کے صدارتی انتخابات کو پارلمیانی انتخابات کے وقت پر کرانے کی تجویز دی ہے وہ محمود عباس کے مشورے کے بغیر نہیں ہوا- جس کا مطلب ہے کہ فلسطینی صدر اپنی مدت میں توسیع کرنے کے لیے تیار ہیں- اس بات کا اعلان بعد میں محمود عباس نے خود بھی کیا-
محمود عباس کو اپنے عہدے اور مرکزیت کے کھوجانے کا ادراک ہے- وہ اپنی حیثیت برقرار رکھنے کے لیے شخصیات سے اتحاد اور پس پردہ علاقائی اور بین الاقوامی طاقتوں سے مدد حاصل کریں گے- 2003ء میں انہیں معلوم تھا کہ سابق صدر یاسر عرفات سے براہ راست ٹکر لینا ان کے لیے سود مند نہیں ہے لہذا انہوں نے اندرونی اتحاد اور بین الاقوامی دباؤ کے ذریعے وزیر اعظم کا عہدہ حاصل کرلیا- پھر چند ماہ کے بعد وزارت عظمی کے عہدے سے استعفی دے دیا- یہ استعفی سیاست سے علیحدگی کے لیے نہیں دیا تھا بلکہ صدارت کے عہدے پر فائز ہونے کے مرحلے کی تیاری تھی-
محمود عباس عرب ممالک کی سیاست کا حصہ ہیں، جہاں پر اپنی مرضی اور خوشی سے کوئی اقتدار سے علیحدہ نہیں ہوتا- البتہ فتح کے اندرونی اختلافات معاملات کو مزید پیچیدہ بنادیں گے- محمود عباس کی مدت صدارت کے خاتمے سے قبل کانفرنس کے انعقاد کے حوالے سے فتح میں اختلافات ہیں- بعض لوگ اسے مغربی کنارے میں منعقد کرنا چاہتا ہے جبکہ ایک گروپ اسے فلسطینی اتھارٹی پر قابض ٹولے سے دور مغربی کنارے سے باہر کسی دوسرے ملک میں کرانا چاہتا ہے- مزید برآں احمد قریع اور محمود عباس کے درمیان اسرائیل سے مذاکرات کے حوالے سے بھی اختلافات ہیں-
صدارتی مسئلے کے حل کا دوسرا راستہ ایمرجنسی نافذ کر کے مدت صدارت میں توسیع کرنا یا پارلیمنٹ کو تحلیل کرنا اگرچہ آئینی طور پر صدر کو تحلیل کرنے کا حق نہیں ہے- اسمبلی خود بخود اپنے وقت پر تحلیل ہوگی-
تیسرا راستہ حماس اور فتح کا نئے انتخابات کے معاہدے پر متفق ہونا ہے جو حماس اور فتح کی قیادت کے درمیان براہ راست مذاکرات کے بغیر ممکن نہیں- گزشتہ مہینوں میں دونوں فریقوں کی جانب سے ایک دوسرے کے کارکنوں کو گرفتار کرنے کی کارروائیوں میں اضافہ اور مذاکرات کی ناکامی کے ڈر سے عرب ممالک کی طرف سے دونوں فریقوں کو ایک میز پر بٹھانے میں تردد کرنا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ تنازعہ مزید بڑھے گا- دونوں فریقوں کے درمیان مذاکرات کی کامیابی کے صرف بیس فیصد چانسز ہیں-
ان حالات کی روشنی میں فلسطینی اتھارٹی کی جانب سے مدت صدارت میں توسیع کرنے کا احتمال بڑھ جاتا ہے- فلسطینی اتھارٹی نے بعض عرب ذرائع ابلاغ سے مل کر حماس کے خلاف میڈیا مہم شروع کررکھی ہے جس میں تمام مسائل کی ذمہ داری حماس پر ڈالی گئی- مغربی کنارے اور غزہ میں صدارتی انتخابات کے انعقاد پر متفق ہونے کی صورت میں انتخابات کا شفاف ہونا بہت مشکل ہے اگرچہ ناممکن نہیں ہے-
چوتھا راستہ غزہ کو باغی علاقہ قرار دینا ہے جس کے نتیجے میں قانون ساز اسمبلی کو تحلیل کرنے اور نئے صدارتی اور پارلیمانی انتخابات کرانے کا موقع حاصل ہوجائے گا- غزہ کو باغی علاقے قرار دینے کے خطرناک نتائج برآمد ہوسکتے ہیں- فلسطینی اتھارٹی غزہ میں بغاوت کی حالت کے خاتمے کی خاطر بین الاقوامی برادری سے مدد کے لیے سلامتی کونسل کے اجلاس کے انعقاد کا مطالبہ کرسکتی ہے، جس سے علاقے میں اسرائیلی اور بین الاقوامی فوجی مداخلت ہوسکتی ہے- حماس کی قیادت کو غزہ میں محصور کرنے کے لیے عالمی سطح پر قراردادیں پاس ہوسکتی ہیں- غزہ کو باغی علاقہ قرار دیے جانے کے ردعمل میں حماس غزہ میں فتح کے خلاف کارروائی کرسکتی ہے- وہ فتح کو جماعت قرار دے کر دفاتر سیل کر کے راہنماؤں کو گرفتار کر سکتی ہے جس کے نتیجے میں مغربی کنارے میں فتح حماس کے خلاف کارروائی کرسکتی ہے- اس طرح دونوں فریقوں کے درمیان متشدد جھڑپوں کا خطرہ ہے-
مسئلے کے حل کا پانچواں راستہ عبوری حکومت کا قیام ہے یہ عبوری حکومت ٹیکنو کریٹس یا تمام سیاسی جماعتوں کے نمائندوں پر مشتمل ہوسکتی ہے- عبوری حکومت کے قیام کی تجویز بعض جماعتوں کی طرف سے سامنے بھی آئی ہے لیکن یہ تجویز متعدد وجوہات کی بناء پر قابل عمل نہیں ہے-
1) جن لوگوں کی طرف سے یہ تجویز سامنے آئی ہے وہ فلسطینی سیاست میں اثر و رسوخ نہیں رکھتے، کیونکہ
جب سے تنازعہ پیدا ہوا ہے یہ لوگ غزہ اور مغربی کنارے کو اکٹھا کرنے کے لیے کوشش کررہے ہیں لیکن ان کی کوششیں بار آور نہیں ثابت ہوئیں-
2) متنازعہ فریقین کے مشورے کے بغیر عبوری حکومت کا قیام ممکن نہیں ہے- عبوری حکومت کے پاس اپنا کام کرنے کی اہلیت نہیں ہوگی کیونکہ دونوں جانب علیحدہ علیحدہ اجارہ داری ہے-
3) جارج ڈبلیو بش کی باقی ماندہ مدت صدارت میں مذاکرات کی کوششیں ہوں گی جس میں عبوری حکومت فریق نہیں بن سکے گی-
مسئلے کے حل کا چھٹا راستہ یہ ہے کہ حماس آئندہ سال کے آغاز میں آئینی صدر کے لیے صدارتی انتخاب کے انعقاد کا اعلان کردے- حماس کے اس اعلان سے داخلی انتشار مزید بڑھ جائے گا-
مسئلے کے حل کے لیے بیان کیے گئے مندرجہ بالا طریقوں سے واضح ہوتا ہے کہ فلسطینی اراضی میں موجودہ حالات برقرار رہیں گے- اسی طرح متعدد اتھارٹیاں ہوں گی اور کسی کو اپنی حد کا علم نہیں ہوگا- ایسے حالات میں حماس کو پریشان کن دشواریوں کا سامنا ہوگا- جس کا نقشہ مندرجہ ذیل صورتوں میں بن سکتا ہے-
1) اگر دنیا نے محمود عباس کی مدت صدارت میں توسیع کو تسلیم کرلیا تو حماس حقیقی اتھارٹی میں تبدیلی نہیں لاسکے گی- دونوں فریقوں حماس اور فتح کے درمیان صدر کی قانونی حیثیت پر تنازعہ جاری رہے گا- حماس کے سامنے دو راستے ہوں گے یا تو وہ محمود عباس کی اتھارٹی کو قبول کرلے اور اپنے مؤقف سے پیچھے ہٹ جائے یا پھر اسے مسترد کردے جس سے داخلی انتشار بڑھے گا-
2) حماس اسرائیلی حصار بندی کے خاتمے کی اہلیت نہیں رکھتی اگرچہ جنگ بندی کے معاہدے میں بتدریج حصار بندی کے خاتمے کا بھی اعلان کیا گیا تھا- جنگ بندی کے معاہدے کے باوجود حصار بندی کا خاتمہ نہیں کیا گیا-
3) متعدد وجوہات کی بناء پر حماس اور جہاد اسلامی اور دیگر جماعتوں کے درمیان اختلافات بڑھ سکتے ہیں-
ا) اگر اسلامی جہاد کی قیادت کے خلاف اسرائیلی افواج یا فلسطینی سیکورٹی فورسز کی طرف کارروائیاں کی گئیں تو حماس مشکل میں پڑسکتی ہے کیونکہ اسلامی جہاد ان کارروائیوں کا جواب دے گی، اسی صورت میں تو حماس کو ان کارروائیوں کی اجازت دینا ہوگیا جس سے جنگ بندی کے معاہدے پر اثر پڑے گا یا پھر ان کارروائیوں کو روکنا ہوگا جس سے دونوں جماعتوں کے درمیان باہمی تصادم شروع ہو جائے گا اور فلسطینی اتھارٹی اسی تصادم کی منتظر ہے-
ب) غزہ کی اقتصادی حالت مزید بدتر ہو جائے گی جس سے ہڑتالوں میں اضافہ ہوسکتا ہے اور حماس کو ہڑتالیوں کے خلاف طاقت کا استعمال کرنا پڑسکتا ہے- اس طرح کا تصادم پہلے ہو چکا ہے جب اسلامی جہاد سے تعلق رکھنے والے اساتذہ نے 7 ستمبر 2008ء کو ہڑتال کی تھی- اگرچہ اسلامی جہاد نے اعلان کیا ہے کہ اس واقعہ سے حماس سے اسلامی جہاد کے تعلقات پر کوئی اثر نہیں پڑے گا-
ج) حماس کے اندر بعض سیاسی فیصلوں پر اختلافات پیدا ہوسکتے ہیں جیسا کہ مغوی اسرائیلی فوجی کی رہائی کا مسئلہ ہے-
د) پیچیدہ صورتحال کے باوجود اسرائیل اور شام کے درمیان براہ راست مذاکرات کی پیش رفت ہوسکتی ہے جس سے حماس کو بہت بڑی مشکل کا سامنا کرنا پڑے گا- اگرچہ مستقبل قریب میں شام اور اسرائیل کے درمیان براہ راست مذاکرات کے چانسز نہیں لیکن اس احتمال کو ذہن میں رکھنا ہوگا-
امریکی صدارتی انتخابات میں باراک اوباما کی جیت کی صورت میں واشنگٹن اور ایران کے درمیان مذاکرات کے امکانات پیدا ہوسکتے ہیں- مسئلہ فلسطین کے حوالے سے ایرانی مؤقف متبادل نقطہ ہوسکتا ہے-
حماس اور مصر کے درمیان تعلقات بتدریج خراب ہو رہے ہیں- رفح کراسنگ مکمل طور پر نہ کھولنے کی وجہ سے مصر اسرائیلی مغوی فوجی کا مسئلہ حل کرانے میں کامیاب نہیں ہوسکا- جس کا مطلب ہے کہ حماس اور مصر کے درمیان تعلقات ایک واقعہ کی دوری پر کھڑے ہیں- کسی بھی وقت بحران پیدا ہوسکتا ہے جس سے حماس مزید اقتصادی اور سیاسی دباؤ کا شکار ہوسکتی ہے-
تمام حالات اسرائیل سے قیام امن کا معاہدہ کرنے کی کوششیں کرنے والے ٹولے کے مفاد میں ہیں جس سے حماس کے لیے صورتحال مزید پیچیدہ ہو جائے گی- حماس کو سخت مرحلے کے لیے تیاری کرنا چاہیے- اسے ردعمل کے اظہار میں سوچ بچار سے کام لینا ہوگا- گزشتہ دو ماہ میں انتقامی بنیاد پر کی جانے والی گرفتاریوں سے پرہیز کرنا ہوگا- آخر میں جرمن فوجی ماہر مولتکہ گا قول ذکر کروں گا- ’’ہر مرتبہ میں سوچتا تھا کہ دشمن چاروں اطراف سے کسی ایک طرف سے آگے گا لیکن وہ اکثر پانچویں طرف سے آتا تھا-‘‘