رپورٹ میں کہا کہ فلسطینی قیدیوں سے انکے بچوں اور رشتہ داروں کے سامنے ذلت آمیز سلوک کیا جاتا۔تفتیش کے دوران جسمانی تشدد اور نفسیاتی بلیک میلنگ کے ہتھکنڈے استعمال کئے جاتے ہیں۔اسرائیلی جیلوں میں قید حاملہ خواتین کی صحت کے معاملے میں انتہائی لاپرواہی برتی جاتی ہے۔حد تو یہ کہ زچگی کے دوران بھی انہیں بیڑیوں سے رہائی نہیں ملتی۔ جیل انتظامیہ کا حکم نہ ماننے کی پاداش میں خواتین اسیرات تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ انہیں بلا جواز بھاری جرمانوں کی سزا دی جاتی ہے اور بسا اوقات ان کا حوصلہ اور عزم متزلزل کرنے کے لئے انہیں "قید تنہائی” کی اذیت سے بھی گذارا جاتا ہے۔
اسیران سینٹر کی رپورٹ کے مطابق جیل انتظامیہ، خواتین اسیرات سے اشتعال انگیز طریقوں سے تفتیش کرتی ہے۔دوران تفتیشی جیلرز مغلظات بکتی ہیں اور اس غیر انسانی اور غیر اخلاقی سلوک پر احتجاج کی صورت میں انتظامیہ قیدیوں کے خلاف اشک آور گیس استعمال کرتی ہے۔
مرکز اسیران کی رپورٹ میں کہا گیا کہ عدالت میں پیشی کے موقع پر خواتین قیدیوں سے اتنہائی اہانت امیز سلوک روا رکھا جاتا ہے ۔ ملاقات کے موقع پر ان کے عزیز و اقارب کے سامنے قیدیوں سے غیر انسانی سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ اپنی بیرکوں میں مطالعہ کی خواہشمند اسیرات سے بجلی کی سہولت چھین لی جاتی ہے ۔رپورٹ کہا گیا ہے کہ خواتین اسیرات کو دیا جانا والا کھانا معیار اور مقدار دونوں کے لحاظ سے ناکافی ہوتا ہے ۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسرائیلی جیلوں میں اسوقت ستر خواتین قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر رہی ہیں۔ ان میں سے پچاس کو مختلف عدالتوں سے باقاعدہ سزا دلوائی گئی ہے جبکہ پندرہ خواتین کو بغیر مقدمہ چلائے حبس بیجا میں رکھا گیا ہے ۔ قید خواتین میں پانچ فلسطینی اسیرات کو انتظامی حکمنانے کے تحت نظر بند رکھا گیا ہے۔
یاد رہے کہ اسرائیلی جیلوں میں فلسطینی قیدیوں کی مجموعی تعداد دس ہزار سے تجاوز کر چکی ہے ،جن میں تین سو چالیس بچے بھی شامل ہیں۔ان سیران کو صہیونی ریاست کے طول وعرض میں قائم پچیس جیلوں میں اسیرا بنا کر رکھا گیا ہے ۔اسکے علاوہ مقبوضہ القدس میں اسرائیلی حکومت نے متعدد تفتیشی مراکز قائم کر رکھے ہیں جنہیں "سب جیل "کا درجہ حاصل ہے۔