اخبار نے اپنی رپورٹ میں اسرائیلی محکمہ آبادکاری کے ڈائریکٹر منحاس فالر شٹائن کے حوالے سے لکھا ہے کہ موجودہ حکومت یہودی آبادی کی زیادہ مخالف حکومت رہی لیکن آبادکاری کے جتنے منصوبوں پر اس دور میں کام ہوا ماضی میں کسی حکومت کے دور میں نہیں ہوسکا- یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ ایہود اولمرٹ نے گزشتہ برس نومبر میں اناپولیس کانفرنس سے قبل اور اس کانفرنس کے دوران بھی یہ عہد کیا تھا کہ وہ اب توسیع آبادکاری کا سلسلہ روک دیں گے- ان کی اور وزیر دفاع کی اجازت کے بغیر کوئی مکان تعمیر نہیں کیا جاسکے گا-
اسرائیلی سربراہ حکومت کے اعلان کے علی الرغم غیر قانونی مکانات کی تعمیر کا سلسلہ جاری ہے- مکانات کی تعمیر کے لیے ’’امانات‘‘ جیسی شدت پسند جماعتیں نہ صرف تعمیرات کے لیے مالی تعاون کررہی ہیں بلکہ ان مکانوں میں رہائش اختیار کرنے والوں کے لیے فی خاندان ایک لاکھ شیکل وظیفہ بھی دیا جاتا ہے-
فالر شٹائن اعتراف کرتے ہیں کہ مکانات کی تعمیر اور اس کے متعلقہ سامان کی منتقلی کی اجازت نہیں، لیکن اس کے باوجود تعمیرات کا سلسلہ جاری ہے جو حکومت کے لیے ایک چیلنج ہے- وہ مزید کہتے ہیں کہ اولمرٹ حکومت کے دوران غرب اردن میں سامریہ یہودی نسل کے یہودی آباد کاروں میں پچاس ہزار کا اضافہ ہوا-
شٹائن کے علاوہ ’’سلام آلان‘‘ تنظیم کے ڈائریکٹر یاریف اوفنھائر کا کہنا ہے کہ حکومت کی کمزور پالیسیوں اور اقدامات پر عمل درآمد میں ناکامی کے باعث یہودی آباد کاروں کو اپنی مرضی سے توسیع آباد کاری کا موقع مل رہا ہے-
اسرائیل کی جانب سے القدس اور اس کے بعد غرب اردن میں کھلے اور چھپے انداز میں یہودیت کو فروغ دینے سے یہ واضح ہو رہا ہے کہ فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے اسرائیلی دعوئوں میں کوئی صداقت نہیں- اسرائیل غرب اردن کو بھی اسرائیل کا اٹوٹ انگ بنانے کے لیے یہودی آبادکاری کا سہارا لینا چاہتا ہے-