اسرائیل نے اس سال کے آغاز میں ایران کی فوجی تنصیبات پر حملے کا منصوبہ بنایا تھا لیکن امریکا کے صدر جارج ڈبلیو بش نے صہیونی ریاست پر واضح کردیا تھا کہ وہ اس کے ایسے کسی اقدام کی حمایت نہیں کریں گے.
یہ انکشاف برطانیہ کے موقر اخبار گارڈین نے جمعہ کو شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں کیاہے.اخبار نے ایک مغربی ملک کے سربارہ ریاست کے قریبی سنئیر سفارتی ذریعے کے حوالے سے لکھا ہے کہ صدر بش نے کہا تھا کہ وہ اپنی باقی مدت صدارت کے دوران اس قسم کے نکتہ نظر کے اعادے کی توقع نہیں کرتے.
اسرائیلی وزیر اعظم ایہود اولمرٹ کے ترجمان مارک ریگیف نے رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل ایران کے ایٹمی تنازعے کے سفارتی ذرائع سے حل کوترجیح دیتا ہے.لیکن ساتھ ہی اسرائیلی ترجمان کایہ بھی کہنا تھا کہ میز پرتمام آپشن کھلے رکھے جانے چاہئیں.
گارڈین کی رپورٹ کے مطابق اسی ہفتے اپنے عہدے سے مستعفی ہوجانے والے اسرائیلی وزیراعظم ایہود اولمرٹ نے صہیونی ریاست کے قیام کی ساٹھویں سالگرہ کے موقع پر14مئی کوصدر بش کے دورے میں ان سے تنہائی میں ملاقات کی تھی جس میں ان سے اس مسئلہ پر بات کی تھی.لیکن انہیں امریکی صدر کی جانب سے انکارکا سامنا کرنا پڑاتھا.
مسٹر ریگیف کا کہنا تھا کہ ایہوداولمرٹ ہر غیر ملکی رہ نما کے ساتھ ملاقات میں ایران کو جوہری ہتھیاروں کے حصول سے باز رکھنے کے لئے بات کرتے رہے ہیں.لیکن انہوں نے گارڈین کی رپورٹ میں جس مخصوص بات چیت کا نامعلوم ذرائع کے حوالے سے ذکرکیا گیا ہے،اس سے انکار کیا اور کہا کہ ایہود اولمرٹ نے کسی غیرملکی شخصیت سے اس طرح کی بات نہیں کی.
گارڈین نے لکھا ہے کہ یورپی سربراہ مملکت نے صدر بش کے دورے کے کچھہ عرصہ بعد ایہود اولمرٹ سے ملاقات کی تھی اور ان کے درمیان ہونےو الی بات چیت اتنی حساس اور خفیہ تھی کہ کسی اہلکار نے اس کو نوٹ نہیں کیا تھااور اسرائیلی وزیراعظم نے بعد میں اپنے اہلکا روں کو اس ملاقات میں ہونے والی گفتگو کے بارے میں بتایا تھا.
ذرائع کے مطابق صدر بش نے اسرائیلی حملے کی حمایت نہ کرنے کا فیصلہ دووجوہ کی بنا پر کیا تھا.ایک یہ کہ امریکاکو ایران کی جانب سے جوابی کارروائی پر تشویش تھی جس کے دوران وہ عراق اور افغانستان میں تعینات امریکی فوجوں کے علاوہ خلیج میں موجود امریکی بحری بیڑے کو بھی نشانہ بنا سکتا تھا.
دوسراسبب یہ تھا کہ امریکا سمجھتا ہے کہ اسرائیل ایک حملے میں ایران کی جوہری تنصیبات کو تباہ نہیں کرسکے گا جس کی وجہ سے بڑے پیمانے پر جنگ چھڑ جائے گی.
امریکا اور دوسرے مغربی ممالک ایران کو اس کے ایٹمی پروگرام سے دستبردار کرانے کے لئےسفارتی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں اوروہ ایران کے خلاف اقوام متحدہ کی پابندیاں عاید کرانے میں بھی کامیاب رہے ہیں لیکن ایران نے اس کے باوجود اپنے ایٹمی پروگرام سے دستبردارہونے سے انکار کردیاہے.
امریکا کا کہنا ہے کہ وہ سفارتی ذرائع سے ایران کے ایٹمی مسئلہ کا حل چاہتا ہے لیکن اس نے ایران کے خلاف آخری حربے کے طور پر فوجی طاقت کے استعمال کو بھی مسترد نہیں کیا.
واضح رہے کہ اسرائیل خطے کی واحدغیرعلانیہ ایٹمی قوت ہے اسے یقین ہے کہ ایران 2010ء تک جوہری بم تیار کرسکتا ہے جس سے صہیونی ریاست کے وجود کو خطرہ ہوگا.دوسری جانب ایران کاکہنا ہے کہ وہ جوہری ہتھیاروں کی تیاری نہیں چاہتا بلکہ اپنی معاشی ضروریات کے پیش نظرتوانائی کی بڑھتی ہوئی ضروریات کو پوراکرنے کے لئے افزودہ یورینیم سے بجلی پیدا کرنا چاہتا ہے.