اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ فتح تنظیم جس نے 2006ء میں حکومت بنائی اور جس کو امریکہ کی جانب سے امداد ملتی رہی ہے – اس میں جمہوری تبدیلی چکی ہے – فتح وہی تنظیم ہے کہ جس نے نہ چاہتے ہوئے امریکی دبائو پر 2006ء میں ہونے والے انتخابات پر رضا مندی ظاہر کی اور اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ انہیں یقین نہیں تھاکہ انہیں کامیابی مل جائے گی لیکن جب حماس نے واضح اکثریت کے ساتھ انتخابات جیت لیے‘ فتح اس کڑوی گولی کو گلے سے نہ اتار سکی تو فتح نے فیصلہ کرلیا کہ کوئی ایسا معاملہ کیا جائے جس سے حماس کو محدود کیا جاسکے اور اس سے اقتدار چھینا جاسکے-
کچھ مبصرین کا خیال ہے کہ فتح نے حماس کو اقتدار سے محروم کرنے کا اسی وقت فیصلہ کرلیاتھا کہ جب حماس نے انتخابی کامیابی حاصل کی تھی – تاہم فتح کے چند لیڈروں نے انتخابی نتائج کو کھلے دل سے تسلیم کرلیا- مگرانہوں نے بھرپور طریقے سے کوشش کی کہ امریکی قیادت کے ساتھ مل کر حماس کے خلاف جاری جنگ کا دست وباز و بنیں‘ یہ ایک ایسی جنگ ہے کہ جو تاحال جاری ہے –
چند سال قبل میں نے محمد دحلان کے خطاب کی ٹیپ سنی- یہ خطاب حدیہ ریڈیو سٹیشن سے نشر کیاگیاتھااور اس میں محمد دحلان اپنے پیروکاروں سے خطاب کررہے تھے- اس بریفنگ میں محمد دحلان نے قسم کھائی کہ وہ ایسے حالات پیدا کردیں گے کہ حماس کو اس پر پچھتانا پڑے گا کہ اس نے انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کیوں کیا؟- محمد دحلان نے کہاکہ میں چند جیبیں ادھر سے ادھر بھیجوں گا اور اس سے یہ تاثر ابھرے گا کہ غزہ میں آگ بھڑک اٹھی ہے‘ دحلان نے کچھ اور جملے بھی کہے لیکن قلم کے پاس کے زیر نظر ان کااندراج نہیں کیا جا رہا ہے-
فتح یا اس کے اندر امریکی سرپرستی میں چلنے والے زیادہ طاقتورگروپ نے سی آئی اے اور اسرائیل کے ساتھ ساز باز کی تاکہ حماس کا تجربہ ناکام ثابت ہوسکے اور مشرق وسطی یامسلم دنیا کے دیگر علاقوں میں اس کو دہرایا نہ جاسکے- بنیادی طور پر یہ با ت طے کی گئی تھی کہ عام فلسطینیوں پر اس قدر اقتصادی اور مالی پابندیاں عائد کردی جائیں کہ وہ نہ صرف حماس کو ووٹ دینے کے فیصلے پر پچھتانے لگیں بلکہ اسلامی تحریکات کے بھی خلاف ہوجائیں اور ایسی کارواائیاں لاطینی اور وسطی امریکہ میں کئی بار کی جا چکی ہیں-
اسی سال کی بات ہے کہ امریکی رسالے ’’وینٹی فیئر ‘‘ نے بش انتظامیہ نے کس طرح کانگریس سے جھوٹ بول کر فتح کومسلح کیا تاکہ فلسطین میں خانہ جنگی شروع ہوسکے اور حماس کی حکومت کو گریا جاسکے-
اس رپورٹ میں بتایاگیاتھاکہ 2006ء میں انتخابات حماس کی کامیابی کے بعد وائٹ ہاؤس نے کوشش کی کہ حماس کی حکومت کا خاتمہ کیاجاسکے- رپورٹ کے مطابق بش انتظامیہ نے کانگریس سے جھوٹ بولا اور فتح کے ساتھ فوجی تعاون کیا تاکہ فلسطین میں خانہ جنگی شروع ہوسکے اور حماس ناکام ہوسکے- وینٹی فیئر نے اس سارے معاملے کو ’’Iran Cantra 2.0‘‘قراردیا اور اس کے ذریعے ریگن انتظامیہ کی جانب سے نکارا گوا مخالفین کو فنڈز کی فراہمی کی یاد دلانا مقصود ہے اور اس مقصد کے حصول کے لیے ایران کو خفیہ طور پر اسلحہ فراہم کیاگیاتھا-
بش انتظامیہ کے ایک سابق اعلی عہدیدار کا کہناہے کہ حماس میں غزہ کی جانب سے حکومتی اداروں کاکنٹرول ‘امریکہ کی سرپرستی میں حکومت الٹ دینے کے متوقع اقدامات کامقابلہ کرنے کے لیے ایک حفاظتی قدم تھا- سابق امریکی اہل کار ڈیوڈ ورم سترجس نے نائب صدرڈک چینی کے مشرق وسطی کے مشیر کا کردار اداکیا اور 2007ء میں استعفی دیا اس کا کہناہے کہ مشرق وسطی میں قیام امن کے صدر امریکہ کے پیغام اور ان کے عملی اقدامات میں کافی فرق موجود ہے- فتح نے اس رپورٹ کی حیثیت کے بارے میں شکوک و شبہات کااظہار کیا اور اسے ’’غیر حقیقی ‘‘ رپورٹ قرار دیا –
اب فتح پھر مطالبہ کررہی ہے کہ انتخابات کا پھر انعقاد ہوناچاہیے اور انتخابات کے حوالے سے جو شکو ک و شبہات پائے جاتے ہیں ان سے صرف نظر کررہی ہے – وہ سوالات حسب ذیل ہوسکتے ہیں- اس میں پہلا سوال یہ ہے کہ اسرائیلی اور امریکی انتظامیہ جو حماس کو دہشت گردتنظیم سمجھتے ہیں ( اس کی وجہ تشددنہیں ہے بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ فلسطینیوں کے حقوق پر اصرار کرتی ہے خصوصاً فلسطینی مہاجرین کی واپسی کا حق ) 2006ء کے بعد شفاف انتخابات کروائیں گے- جبکہ سابقہ ’’شفاف‘‘ انتخابات کے نتائج انہیں پسند نہیں آئے –
فتح کے لیڈران یہ دلائل پیش کرسکتے ہیں کہ انتخابات فلسطینیوں کا اندرونی اور داخلی معاملہ ہے –
یہ بات درست ہے لیکن ہم سب یہ بھی جانتے ہیں کہ فلسطینی اتھارٹی ایک ریاست نہیں ہے‘خود مختار ہونے کا تو سوال ہی کیا ‘ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ فلسطینی اتھارٹی 150فی صد امریکہ کی باجگزار ہے جو اسرائیل کے احکامات تسلیم کرتی ہے – ہم فرض کرلیتے ہیں کہ حماس انتخابات جیت جاتی ہے تو کیافتح انتخابی نتائج تسلیم کرلے گی نیز ہزاروں وہ سپاہی جنہیں امریکہ نے اور حماس مخالف امریکہ سے تنخواہیں وصول کرنے والے افراد نے مغربی کنارے میں تربیت دی ‘ کیا وہ حماس کی قیادت میں دوبارہ حکومت مغربی کنارے میں تسلیم کرلیں گے –
یہ سراسر بے وقوفی ہوگی اگر ہم یہ سمجھیں کہ وہ فیصلہ تسلیم کرلیں گے- ہم ایک ایسی سیکورٹی فورس کے بارے میں بات کررہے ہیں کہ جس کے قیام کامقصد ہی یہ ہے کہ حماس کا خاتمہ کیا جائے اور اس کے اثرات کم کردیئے جائیں- کیا ایسا نہ ہوگاکہ اسرائیلی قابض فوج جو مغربی کنارے کے ہر محلے اورگلی کوکنٹرول کرتی ہے ’’غلط نمائندوں کو گرفتار نہ کرے گی اور غلط کامیاب ہونے والوں ‘‘ کو جیلوں کی سلاخوں کی پیچھے نہ ڈالے گی- جیساکہ سابقہ انتخابات کے بعد کیاگیاتھا-
ان لوگوں کی اطلاع کے لیے کہ جو اس حقیقت کو فراموش کرچکے ہیں‘ کہ یہ تیسرا برس ہے کہ اسرائیل منتخب فلسطینی نمائندوں کوگرفتار کرنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے‘ ان میں میئر‘ مقامی کونسلوں کے میئر‘خصوصاً قانون ساز کونسل کے چالیس اراکین اور اراکین کابینہ شامل ہیں – ان اراکین اسمبلی اورمنتخب نمائندوں کا قصور یہ ہے کہ جن میں فلسطینی پارلیمان کے سپیکر ڈاکٹر عزیز دویک بھی شامل ہیں کے انہوں نے ’’غلط انتخابات‘‘ میں حصہ لیا – یہ بات بھی ایک لحاظ سے غلط ہے کیونکہ 2006ء میں جو انتخابات ہوئے تھے ان کو وزیراعظم ارئیل شیرون کی اسرائیلی حکومت نے قبول کیاتھا اور بش انتظامیہ نے بھی ان انتخابات کو درست قرار دیاتھا-
مشر ق وسطی میں اسرائیل نے جو رویہ اختیار کررکھاہے وہ یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ غیر ملکی تسلط میں جمہوریت کا پودہ کبھی پروان نہیں چڑھ سکتا- یہ ایک ایسا پیغام ہے کہ جسے حماس اور فتح سمیت تمام سیاسی جماعتوں کو سمجھ لینا چاہیے ‘ اگر یہ نہ کیا گیا تو فلسطینی ساری دنیاکے مذاق کا نشانہ بن جائیں گے-