فلسطینیوں کے دلوں میں مزاحمت زندہ و جاوید ہے- اسلامی مقدسات کی آزادی تک جدوجہد ترک نہیں کریں گے- مسجد اقصی کو شہید کرنے کی سازش جاری ہے- سازش کی کامیابی سے پہلے ہنگامی اسلامی سربراہی کانفرنس منعقد کی جائے-
ان خیالات کااظہار مفتی اعظم فلسطین اور مسجد اقصی کے خطیب علامہ محمد حسین نے عرب جریدے ’’المجتمع ‘‘ کو انٹرویو میں کیا- انٹرویو کا متن زائرین کے پیش خدمت ہے-
کہا جارہا ہے کہ فلسطینیوں کے اندرونی اختلافات کے باعث مزاحمت ختم ہوگئی ہے یا کمزور پڑ گئی ہے- آپ اس بارے میں کیا کہیں گے ؟
اسلامی تحریک مزاحمت (حماس) اور فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس کے درمیان بنیادی اختلافات اسرائیل کو تسلیم کرنے اورتل ابیب سے معاہدے کرنے پر ہے- آپ کا کیا خیال ہے؟
اسرائیلی حکومت ہمیشہ کہتی ہے کہ وہ قیام امن کے عمل میں سنجیدہ ہے‘ آپ ان باتوں پر کس حد تک اعتماد کرتے ہیں؟
جواب :اسرائیلی حکومت قیام امن کے عمل میں بالکل سنجیدہ نہیں ہے- عذر گھڑ رہی ہے اور چالاکی اور مکاری سے کام لے رہی ہے- جبکہ فلسطینی عوام اور حکومت امن چاہتے ہیں – ان کی خواہش ہے کہ علاقے میں امن و استحکام ہو لیکن شرط یہ ہے کہ ان کے قانونی حقوق پر کوئی آنچ نہ آئے – ان کی غصب شدہ زمین ‘انہیں واپس مل جائے – فلسطینی شہری کی اپنے وطن اور اپنی زمین سے شدید وابستگی ہے-
مسجد اقصی کے خلاف اسرائیلی جارحیت اور وہاں پر کھدائی کا کام کہاں تک پہنچایا ہے؟ کیا عوام کی طرف سے غم وغصے کے اظہار کے بعد مسجد اقصی میں سرنگیں کھودنے کا کام رک گیاہے-
جواب :مسجد اقصی کے خلاف اسرائیلی جارحیت کی یہ کارروائیاں پہلی دفعہ نہیں ہوئیں اور نہ ہی یہ کارروائیاں آخری ہیں- 1967ء سے آج تک یہ کارروائیاں جاری ہیں-جو کچھ ہو رہاہے میڈیا کے ذریعے پوری دنیا دیکھ اور سن رہی ہے- مسجد اقصی کے مراکشی دروازے کو گرانے کی سازشیں کی گئیں- بلڈوزر اور بھاری ہتھیار استعمال کئے گئے- ابھی تک یہ سازشیں جاری ہیں لیکن اب یہ کام پھاوڑے اور کدالوں سے کیا جارہا ہے- مسجد اقصی کو منہدم کرنے کی سازش ایک لمحے کی پیداوار نہیں ہے بلکہ وہ قدیم اور جدید کارروائی ہے جو گاہے بگاہے ہوتی رہتی ہے- مسجد اقصی کو گرانا اور اس کی جگہ نام نہاد ہیکل سلیمانی کی تعمیر صہیونی عقیدے کا حصہ ہے- امریکہ ‘ برطانیہ اور آسٹریلیا میں ایسے کلیسا ہیں جو مسجد اقصی کے گرائے جانے کی یہودیوں کو خوشخبری دیتے ہیں اور اس کے لیے دعائیں کرتے ہیں- مسجد اقصی کو گرانے کی کارروائی کے لیے چندہ اکٹھا کیا جاتاہے-
ہیکل کی موجودگی کے حوالے سے صہیونی دعوؤں کی حقیقت کیا ہے ؟
جواب :اسرائیلیوں کے ذہنوں میں یہ دعوی پختہ ہے اور صہیونی تنظیمیں مسجد اقصی کے نیچے ہیکل سلیمانی کے وجود کے دعوے کی اشاعت کے لیے پوری دنیا میں کام کررہے ہیں- مسجداقصی کے نیچے ہیکل سلیمانی کے وجود کا دعوی ایک صہیونی افسانہ ہے- جس کی کوئی بنیاد نہیں ہے – ہم واضح کرتے ہیں کہ اسرائیلی دعوے کی کوئی حقیقت نہیں ہے- حقائق کو چھپانا اور حقوق غصب کرنا صہیونی فطرت ہے-
کیا آپ اس بات سے متفق ہیں کہ مسجد اقصی کا دفاع صرف فلسطینیوں کا فرض ہے؟
جواب :ہم فلسطینی اس سلسلے میں حتی المقدور کوشش کررہے ہیں- ہم احتجاج کررہے ہیں- مظاہرے کررہے ہیں‘ مسجد اقصی کو اسرائیلی ظلم سے بچانے کے لیے پوری دنیا سے اپیلیں کررہے ہیں- اسرائیلی بلڈوزروں کے سامنے ہم اس سے زیادہ کچھ نہیں کرسکتے-
یہ بات غیر معقول ہے کہ مسجد اقصی کا دفاع اور آزادی صرف فلسطینیوں کا فرض ہے کیونکہ اقصی صرف فلسطینیوں کی نہیں ہے- مسجد اقصی کا دفاع اور اس کی حفاظت تمام مسلمانوں کا فرض ہے کیونکہ مسجد اقصی مسلمانوں کے عقیدہ کا حصہ ہے
مقبوضہ بیت المقدس اور مسئلہ فلسطین کے حوالے سے مسلم ممالک کے موقف کو آپ کس طرح دیکھتے ہیں؟
جواب:مذمت‘ اظہار ناگواری اور قرار دادیں کافی نہیں ہیں اور نہ ہی اس سے کوئی فائدہ ہے- مذمتی قراردادوں سے اسلامی مقدسات آزاد نہیں ہوں گے- صہیونی جارحیت روکنے اور فلسطینی عوام کے خلاف اسرائیلی ناکہ بندی کے خاتمے کے لیے اسلامی حکومتوں اور عوام کوفعال موقف اختیار کرنا پڑے گا-
مسجد اقصی کے خلاف اسرائیلی سازشوں کے مقابلے کے لیے پ نے ہنگامی اسلامی سربراہی کانفرنس کے انعقاد کا مطالبہ کیاہے ‘ آپ کو کوئی امید ہے کہ مستقبل قریب میں اسلامی سربراہی اجلاس کاانعقاد ہوسکتاہے ؟
جواب :جی ہاں !میں نے مسجد اقصی کو درپیش خطرات سے نمٹنے کے لیے اسلامی سربراہی کانفرنس کے اجلاس کے انعقاد کا مطالبہ کیاہے- یہ اجلاس او آئی سی یا عرب لیگ کے زیر انتظام ہونا چاہیے- اس کی قراردادیں فعال ہونی چاہئیں- اگر مصمم ارادہ ہو تو اسلامی سربراہی اجلاس کانعقاد ممکن ہے- میری خواہش یہ ہے کہ اجلاس جلد منعقد ہواور مسجد اقصی کے خلاف سازش کامیاب ہونے سے پہلے منعقد ہو – مسجد اقصی کی دیواریں گر گئیں تو پھر پشیمانی کا کیا فائدہ؟ اس وقت بیسیوں اجلاس بھی اس نقصان کو پورا نہیں کرسکیں گے جو اسلامی ممالک کی خاموشی کی وجہ سے امت مسلمہ کو اٹھانا پڑے گا-