پنج شنبه 01/می/2025

اسرائیلی خواتین کے لئے بین الاقوامی امن انعام

اتوار 14-ستمبر-2008

اسرائیلی خواتین کی جانب سے مغربی اردن کے علاقے میں انسانی حقوق کی پامالی کے خلاف آواز بلند کرنے والے گروپ "ماشوم واچ” کو حال ہی میں جرمن شہر آخن میں اس سال کے امن انعام سے نوازا گیا۔

اس سال بین الاقوامی امن انعام کا حقدار پروٹسٹننٹ چرچ کے ایک فلسطینی پادری متری راہب اور اسرائیلی خواتین کی ایک امن پیش قدمی "ماشوم واچ” کو قرار دیا گیا۔ حال ہی میں جرمنی کے تاریخی شہر آخن میں اس بار کے امن انعام کی تقسیم کی تقریب کا انعقاد ہوا جس سے بھرپور تاثر مل رہا تھا کہ اس بار اس انعام کے حقدار کے فیصلے میں اسرائیل فلسطین دیرینہ تنازع کے حل کے لئے سرگرم امن پیش قدمیوں کو مرکزی حیثیت حاصل تھی۔

علاقائی تنازعات، جنگ و جدل جارحیت، قبضہ اور بے دخلی۔ عالمی سطح پر ان عوامل نے مختلف قوموں، نسلوں اور معاشروں کے اندر ایک دوسرے کے خلاف نفرت اور دشمنی پیدا کرنے کے عمل میں غیر معمولی کردار ادا کیا ہے۔ ان حالات سے سب سے زیادہ بچے اور خواتین متاثر ہوتے ہیں۔ تاہم خواتین ہی معاشروں اور قوموں کو ایک دوسرے کے قریب لانے، انکے مابین افہام و تفہیم پیدا کرنے اور آنے والی نسلوں کے دلوں میں امن و آتشی کی روشنی ڈالنے میں اہم ترین کردار ادا کر سکتی ہیں۔ اسرائیل ۔ فلسطین تنازع دونوں طرف کی کئی نسلوں کے اندر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے نفرت کا باعث بنا ہے۔ کیا اس علاقے میں کبھی امن، بھائی چارگی اورانسان دوستی کا پیغام پہنچانے کی کوئی عملی کوشش ہو گی؟ کسی کو اس کا یقین نہیں تھا تاہم سینکڑوں اسرائیلی خواتین نے ماخسوم واچ کے نام سے ایک تنظیم قائم کی

سچے جذبوں کے ساتھ اگر انسان دوستی، بھائی چارگی اور صلاح رحمی کے لئے کام کیا جائے تو مقصد میں کامیابی ضرور حاصل ہوتی ہے۔

فلسطینی وزارت صحت کی ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ چھ سالوں کے دوران اڑسٹھ فلسطینی خواتین نے اپنے بچے کو کسی نہ کسی اسرائیلی چک پوسٹ میں جنم دیا۔ چونتیس بچے مردہ پیدا ہوئے۔ اسرائیلی قبضے والے فلسطینی علاقوں میں کوئی چھ سو اسرائیلی چک پوسٹس قائم ہیں۔ عبرانی زبان میں چک پوسٹ کو "ماشوم” کہتے ہیں۔ فلسطینی باشندوں کو ہر روز ان چک پوسٹوں کی سختیاں کئی کئی گھنٹے جھیلنا پڑتی ہیں۔ وہاں پر کیا صورتحال ہے اسکا اندازہ بھی نہیں کیا جا سکتا۔

یورپ میں عام خیال یہی کیا جاتا ہے کہ یہ محض فلسطینی پروپیگنڈا ہے۔ سن دو ہزارایک میں چند اسرائیلی خواتین نے ماشوم واچ کے نام سے حقوق نسواں کا ایک ادارہ قائم کیا۔ اسکی بنیادی اراکین میں سے ایک رونی ہیمرمان کا کہنا ہے۔”ہم اپنے اندر ایک دوسرے کے خلاف نفرت پیدا نہیں ہونے دیتے۔ ہم یہاں آتے ہیں اور فلسطینیوں کی مدد جس طرح سے ممکن ہو کرتے ہیں۔ تاہم سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہم اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے مابین فاصلے پیدا کرنے اور انہیں ایک دوسرے سے علیحدہ کرنے کی کوششوں اور ان سرگرمیوں کی دستاویز کاری کریں۔ اس قسم کے چک پوسٹ بناکر لوگوں کے لئے مسائل پیدا کرنے اور انہیں علیحدہ اور دور کرنے کی سیاست کے بارے میں ہمیں تفصیلات رقم کریں گے۔ یہ سب کچھ دستاویز کی صورت میں اکھٹا ہوگا۔”

ماشوم واچ کی روح رواں جوڈی کرسٹین کیشتھ ہیں جو ایک یہودی ماں باپ کی اولاد ہیں۔ انکے والدین کافی عرصے سے جرمنی میں آباد تھے۔ تاہم انیس سو انتالیس میں وہ برطانیہ جا کر آباد ہوگئے تھے۔ انکی بیٹی جوڈی، انیس سو تینتالیس میں جنوبی ویلز میں پیدا ہوئی تھی اور پندرہ سال کی عمر میں پہلی بار وہ اسرائیل گئیں۔ بھرپور جوش و خروش کے ساتھ جوڈی ایک منصفانہ معاشرے کی ترقی کے لئے کام کرنا چاہتی تھیں۔ پچاس سال بعد یعنی آج بھی انھوں نے اپنے آبائی وطن میں امن انصاف اور مساوات پر مبنی ایک معاشرے کے قیام کی امید کا دامن ہاتھ سے نہیں جانے دیا ہے۔ اب بھی وہ اس کے لئے اپنی تمام تر قوت صرف کرنا چاہتی ہیں۔ تاہم آج یہودی والدین کی بیٹی جوڈی کا شمار اسرائیل کی جارحانہ اور قبضے سے عبارت سیاست کے سخت ترین ناقدوں میں ہوتا ہے۔

عورت ماں، بہن، بیٹی اور بیوی ہر روپ میں معاشرے کا اہم ترین جز ہوتی ہے۔ ایسے خطوں اور علاقوں میں جہاں طویل عرصے سے سرحدی تنازعات، خانہ جنگی یا سیاسی بحران پایا جاتا ہے، وہاں ان حالات کی چکی میں سب سے زیادہ عورت ہی پستی ہے۔ اس کے باوجود امن و سکون ، دوستی اور بھائی چارگی کی فضاء قائم کرنے کے لئے نہ صرف عورتیں اہم کردار ادا کرتی ہیں بلکہ آئندہ نسل کی مثبت طریقے سے تربیت کر کہ انکے  اندر دیگر قوموں، مذاہب اور ثقافتوں کے ساتھ رواداری پیدا کرنے کی اہم زمہ داری بھی ہر معاشرے کی خواتین پر ہی عائد ہوتی ہے۔

اس سال جہاں ماشوم واچ نامی اسرائیلی خواتین کی مغربی اردن کے علاقے میں انسانی حقوق کی تنظیم کو سن دو ہزار آٹھ کا امن انعام جرمن شہر آخن میں دیا گیا وہیں ایک فلسطینی پروٹسٹنٹ چرچ کے پادری متری راہب کو بھی اس سال کے امن انعام کا حقدار قرار دیا گیا۔

چھیالیس سالہ پادری متری راہب گزشتہ تیرہ برسوں سے بیت لحم سے جنوب کی طرف واقع ایک پہاڑی علاقے میں دیار کونسرشیم کے صدر کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ اس کنسرشیم کے زیر انتظام اس علاقے میں ایک اسکول، ایک پیشہ ور تربیت کا مرکز جس میں موسیقی، میڈیا اور سیاحت کے شعبے شامل ہیں اورایک کانفرنس سینٹر سمیت فٹنس سینٹر کام کر رہا ہے۔

متری راہب غرب اردن کے علاقے کے اس حصے میں رہتے ہیں جہاں ڈیڑھ ملین فلسطینی باشندے اسرائیلی چک پوسٹوں، سکیورٹی بلٹ ، باڑھ اور   کنکریٹ کی پختہ اونچی دیواروں کے پیچھے سالوں سے رہ رہے ہیں۔

مختصر لنک:

کاپی