امریکا کے صدر جارج ڈبلیو بش نے نئے صدر کے منصب سنبھالنے تک عراق میں تعینات امریکی فوجوں کی تعداد میں نمایاں کمی نہ کرنے کا اعلان کیا ہے جبکہ ڈیموکریٹس ان سے عراق میں امریکی فوج کی تعداد میں کمی اور افغانستان میں فوجوں کی تعداد میں اضافے کا مطالبہ کر رہے تھے.
صدر بش نے یہ اعلان واشنگٹن میں نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں تقریر کرتے ہوئے کیا . انہوں نے کہاکہ آئندہ سال فروری تک عراق میں امریکی فوج کی تعداد میں آٹھ ہزار کی کمی کی جائے گی.تاہم انہوں نے کہا کہ اس سال عراق میں تعینات امریکی فوجیوں کی تعداد میں کوئی کمی نہیں کی جائے گی.
اس وقت عراق میں قریباً ایک لاکھ چھیالیس ہزار امریکی فوجی تعینات ہیں.انہوں نے افغانستان میں اگلے سال اپنے عہدے سے سبکدوشی سے قبل ساڑھے چارہزار فوجی بھیجنے کا اعلان کیا.
صدر بش کا کہنا تھا کہ عراق میں صورت حال بہترہونے پرسال 2009ء کے پہلے نصف میں امریکی فوجوں کی تعداد میں کمی کی جاسکتی ہے لیکن اس فیصلے کا انحصار ان کے جانشین پر ہوگا.صدر بش 20 جنوری کو اپنے منصب سے سبکدوش ہوں گے.
انہوں نے کہا کہ ”عراق میں دشمن ابھی تک خطرناک ہے اور ہم نے جارحانہ کارروائیوں کا سلسلہ ختم کردیا ہے .عراقی فورسز بڑی تیزی سے جنگ کی قیادت کرنے اوراس میں فتح حاصل کرنے کی صلاحیت حاصل کر رہی ہیں”
دوسری جانب ڈیموکریٹس نےصدر بش کے اعلان پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ عراق سے امریکی فوج نکالنے اور افغانستان میں مزید فوج بھیجنے کے لئے کوئی اقدامات نہیں کر رہے جہاں تشدد کے واقعات میں روزبروزاضافہ ہورہا ہے.
”عراق میں فوجوں کی تعداد میں نمایاں کمی کی ضرورت ہے تاکہ ہم امریکی فوج کی تیاریوں پر توجہ مرکوز کرسکیں اور افغانستان میں جنگ کے خاتمے کے لئے مزید فوج بھیجی جاسکے”سینٹ میں اکثریتی جماعت کے رہ نما ہیری ریڈ کا کہنا تھا.انہوں نے اس بات پر حیرت کااظہار کیا کہ صدر بش نے عراق سے بہت کم فوجیوں کو واپس بلانے اور بہت کم فوجی افغانستان بھیجنے کا اعلان کیا ہے.
صدر بش کے مطابق کل 8 ہزار فوجیوں کو واپس بلا جائے گا .ان میں ایک ہزار فوجیوں پر مشتمل میرین کی بٹالین نومبر میں واپس امریکا جائے گی اور اس کی جگہ نئی بٹالین عراق نہیں بھیجی جائے گی.
ساڑھے تین سے چار ہزار فوجیوں پر مشتمل آرمی کی ایک بریگیڈ فروری 2009ء میں عراق سے واپس چلی جائے گی.جبکہ اس کے بعد اگلے چند مہینوں میں معاون فورسز کے 34 سواہلکار کو بھی عراق سے واپس بلا لیا جائے گا.