پنج شنبه 01/می/2025

قاتل‘ دروغ گو شمعون

پیر 8-ستمبر-2008

اسرائیلی صدر شمعون پیریزنے ایک اور ہتک آمیز بیان دیا ہے اور اس بیان کے ذریعے صہیونی دنیا کی ایک اور خدمت بجا لانے کی کوشش کی ہے- ستمبر کو روم میں دیئے گئے ایک بیان میں پیریز نے تجویزدی کہ حماس کو فلسطینی علاقوں میں آئندہ کسی بھی انتخاب میں حصہ لینے پر پابندی عائد کردی جائے-  یہاں تک کہ جماعت اسرائیل کے نازی طرز کے جابرانہ تسلط کے خلاف جدوجہد بند کردے-
 
پیریز نے اس حقیقت کو یکسر فراموش کردیا کہ بے یارو مدد گار فلسطینیوں پر مظالم اسرائیل نے تشدد اور قتل و غارت گری کے سیاہ باب کا آغاز کررکھاہے- اسرائیلی ریاست کا خیال ہے کہ یہودیوں پر ساٹھ برس قبل نازیوں نے ظلم کیاتھا اس لیے اسرائیلی ریاست کے لیے جائز ہے کہ وہ فلسطینیوں پر تشدد کرے-
 
پیریز یہ یقین دلانے کی کوشش کرتے ہیں کہ اسرائیل‘ مشرق وسطی میں امن و انصاف کا گہوارہ اور آزادی کا نخلستان ہے- انہوں نے کہاکہ فلسطین کی اسلامی تحریک ’’عدم رواداری‘‘اور عسکری و مذہبی دہشت گردی‘‘ میں ملوث اور یہ اقدام جمہوری اقدار سے متصادم ہے- پیریز کے بارے میں یہی خیال کیا جاتاہے کہ اس نے ’’مشرق وسطی‘‘فرانسیسی رابطے ‘‘ سے جوہری ہتھیاروں کا راستہ کھولا ‘ پیریز نے الزام عائد کیاکہ حماس اسرائیل اور امریکی انتظامیہ کے زیر انتظام چلنے والی فلسطینی اتھارٹی کے درمیان قیام امن کی کوششوں میں رکاوٹیں ڈال رہی ہے‘ انہوں نے کہاکہ حماس کے پر تشدد رویے کی وجہ سے فلسطینی اتھارٹی اسرائیل کے ساتھ باضابطہ امن معاہدے پر دستخط نہ کرسکی-

پیریز نے اس حقیقت کو فراموش کردیا کہ اسرائیل کا فلسطینیوں سے 1987-1967 کا دورانیہ  تاہے کہ جب حماس کمزوریا غیر جانبدار رہی لیکن فلسطینی قیادت کے ساتھ یعنی تحریک  آزادی فلسطین (پی ایل او ) کے ساتھ قیام امن کی بجائے صہیونی ریاست نے نئی آبادکاریاں اور یہودیوں کے لیے مخصوص سڑکوں کی تعمیر کرتی رہی اور یہ سب کچھ ایسی سرزمین پر ہوا کہ یہودیوں کی ملکیت ہی نہیں ہے –

پیریز کا بیان جھوٹ کا پلندہ ہے – پیریز بذات خود وہ شخص ہے کہ جس کے ہاتھوں پر معصوم فلسطینیوں کا خون ہے وہ پکا دروغ گو اور دوہرے معیار پر عمل پیرا شخص ہے‘ یہ بات کہ اس کا کئی دارالحکومتوں میں استقبال کیا جاتاہے ‘ کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس کے جرائم کی شدت میں کمی ہوگئی ہے – اسرائیل کے جبر کا نشانہ بننے والے فلسطینیوں کے سامنے جمہوریت اور انسانی حقوق کی وکالت کرنا ایسا ہی ہے گویا کہ اڈولف ہٹلر اور جوزف سٹالن جیسے ظالم‘ انسانی حقوق کی بحالی کی بات ان سے کریں کہ ان کے ظلم کا شکار رہے ہیں- غزہ کی پٹی میں فلسطینیوں کے خلاف جو سلوک ہو رہاہے یہ وہی سلوک ہے کہ جوجنگ عظیم کے دوران نازیوں نے یہودیوں کے ساتھ کیاتھا-

شمعون پیریز اچھی طرح جانتے ہیں کہ عالمی برادری کا یک رخا رویہ نہ ہوتا تو اسرائیلی لیڈروں کو وحشی جانوروں کی طرح ہیگ کی عالمی عدالت انصاف میں کھینچا جاتا تاکہ جو قتل و غارت ‘ انہوں نے کی ہے اس کا جواز پیش کریں – شمعون پیریز اور بن گوریان سے لے کر آج تک تمام اسرائیلی لیڈر پیشہ ورقاتل اور بدترین منافق ہیں- پیریز بذات خود ایک بڑا قاتل ہے جس کی مثال نہیں ملتی – 1996ء میں تیزاک رابن کے قتل کے بعد جنوبی لبنان میں UNIFICکے صدر دفاتر پر بم گرانے کا اسرائیلی فوج کو حکم دیاتھا اور جب جنوبی لبنان میں ہونے والے قتل عام کی عالمی برادری نے کم و بیش مذمت کی ‘پیریز اور اس کے ساتھیوں نے اس وقت سے لے کر آج تک اپنے جرائم پر معافی نہیں مانگی نہ ہی اسرائیل نے کوشش کی ہے کہ جن لوگوں کو ہلاک کیاگیاتھا ان کے اہل خانہ کو تلافی کی رقم ادا کی جائے-

اپنی غلطی تسلیم کرنے کا صہیونی زبان میں کوئی تذکرہ نہیں ہے- شمعون پیریز بہتر جانتے ہیں کہ مقبوضہ فلسطینی علاقوں سے حماس کو اتنخابات میں حصہ نہ لینے دیا جائے گا تو یہ کس قسم کے انتخابات ہوں گے- اگر اسرائیل اور امریکہ کے ایجنٹوں ہی کو انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دیناہے تو پھر فلسطین میں انتخابات کرانے کی ضرورت کیاہے- قانا کاہیرو سمجھتاہے کہ فلسطینی جمہوریت کو اس قدر آزادی ملنا چاہیے کہ وہ ایک ایسے گروپ کا انتخاب کریں کہ جو اسرائیل کے اشارے پر کٹھ پتلی کی طرح رقص کرنے کو تیار ہوں جیساکہ فلسطینی اتھارٹی کے حکام کرتے چلے آ رہے ہیں-

شمعون پیریز کے بیانات سے بھی یہ واضح ہوگیاہے کہ فلسطین میں غیر قانونی گروپوں کو انتخابات میں کامیابی دلانے کی کوشش کی جائے گی- اگر شمعون پیریز یہ بھول بیٹھے ہیں تو انہیں یاد دہانی کرادینا چاہیے کہ اسرائیل کے اندر کئی ایسی جماعتیں اور پارٹیاں ہیں جن کو دہشت گرد گروپوں کی بھرپور حمایت حاصل ہے اور جو کھلم کھلا اعلان کرتی ہیں کہ فلسطین سے غیر یہودیوں کو نکال باہر پھینکا جائے ‘ ان کو اسرائیلی انتخابات میں حصہ لینے سے کیوں نہیں روکا جاتا؟

قومی مذہبی پارٹی مفدال کے بارے میں کیا خیال ہے جو کھلم کھلا دعوی کرتی ہے کہ فلسطینیوں کو اردن اور دیگر عرب علاقوں میں جلاوطن کردیا جائے‘ نیشنل یونین کے بارے میں کیا خیال ہے کہ جو نازی پارٹی کا چربہ ہے جس کے لیڈر کہتے ہیں کہ غیر یہودیوں کی قومیت چھین لی جائے اور فلسطینیوں کے آبادی کے مراکز میں گلی گلی بم بچھادیئے جائیں- اسرائیل کی کابینہ کے ان ارکان کے بارے میں کیا خیال ہے جن میں آریے ایلداد بھی شامل ہیں ‘ جو واضح موقف رکھتے ہیں کہ غیر یہودی انسان ہی نہیں ہیں- بیت المقدس کے تالمود کالج کے مرکز حراف کے زیر تربیت مذہبی راہنماؤں کے بارے میں کیا خیال ہے کہ جو اپنے طالب علموں کو یہ مسلسل تعلیم دیتے ہیں کہ حالت امن میں بھی غیر یہودی بچوں اور شہریوں کو ہلاک کیا جاسکتاہے-
 
سب سے بڑے قاتل باروخ مازول اور اس کے ساتھیوں کے بارے میں کیا خیال ہے کہ جو ایک تسلیم شدہ دہشت گرد ہے اور جس کی کوشش ہے کہ انتخابات میں حصہ لے کر فلسطینیوں کے لیے زندگی کے دروازے مزید بند کردیئے جائیں-

ہم شمعون پیریز کو چیلنج کرتے ہیں کہ کسی ایسے اسرائیلی وزیراعظم یا وزیر خارجہ یا وزیردفاع کا نام بتائیں کہ جو جنگی مجرم نہیں ہیں- مثال کے طور پر اسرائیل کے تین سابقہ وزرائے اعظم لیجئے‘ایہوداولمرٹ ‘ارئیل شیرون اور ایہودباراک‘ کے کردار کا جائزہ لیجئے- ایہوداولمرٹ نے بطور وزیر اعظم اسرائیلی فضائیہ کو حکم دیا کہ جنوبی لبنان پر تین ملین کلسٹر بم گرائے جائیں- جو لوگ  آگاہ نہیں ہیں ان کی اطلاع کے لیے تین ملین بم ‘تیس لاکھ بچوں کو معذور بنانے کے لیے کافی ہیں‘ غزہ میں اولمرٹ نے اسرائیلی فوج کو حکم دیاتھاکہ فلسطین کے معصوم شہریوں پر موت مسلط کردی جائے اور ان کو فاکہ کشی پر مجبور کردیا جائے کیونکہ انہوں نے ایسی پارٹی کو ووٹ دیئے ہیں کہ جو اسرائیل اور امریکہ کو پسند نہیں ہے- ارئیل شیرون کے جنگی جرائم کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں-

ایہود باراک کا معاملہ دیکھئے کہ اس نے فلسطینی بچوں کو اپنے ہاتھوں سے قتل کیا اور بیروت میں فلسطینی ادیبوں اور دانشوروں کے قتل کی اجازت دی اور جس نے حکم دیاتھا کہ غیر مسلح فلسطینیوں پر گولیا برسائی جائیں- اسرائیلی عوام کے ووٹ حاصل کرنے کے لیے اس نے انتہائی گھٹیا جذبات ابھارنے کی کوشش کی تھی- اسرائیل کا اپنا وجود ہی انسانیت کے خلاف ایک جرائم ہے- اس لیے اسرائیلی لیڈروں کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ انسانی حقوق اور جمہوری اقدار کے بارے میں بات کریں-

 

مختصر لنک:

کاپی