امریکی وزیر خارجہ کونڈولیزا رائس نے لیبیا کے سربراہ کرنل معمر قذافی سے ترپولی میں ملاقات کی ہے جس کے بعد انہوں نے کہا کہ دونوں ملکوں کے تعلقات ایک’ نئے دور‘ میں داخل ہوگئے ہیں۔
کرنل قذافی کی سرکاری رہائش گاہ باب العزیزیہ میں افطار کی دعوت میں شریک ہونے کے بعد محترمہ رائس نے کہا کہ ’ہمارے تعلقات کئی برسوں سے صحیح سمت میں بڑھ رہے تھے اور میرے خیال میں آج سےایک نئے دور کا آغاز ہوگا۔‘
انیس سو چھیاسی میں امریکی جنگی طیاروں نے باب العزیزیہ پر ہی بمباری کی تھی جس میں کرنل قذافی کی بیٹی ہلاک ہوگئی تھی۔ امریکہ کا دعوی تھا کہ یہ کارروائی جرمنی میں دہشت گردی کے ایک حملے کے جواب میں کی گئی تھی جس میں اس کے مطابق لیبیا کا ہاتھ تھا۔
محترمہ رائس نے کہا کہ ’میں پہلے بھی کہہ چکی ہوں کہ امریکہ کا کوئی مستقل دشمن نہیں ہوتا۔ ہم نے (کونڈولیزا رائس اور کرنل قذافی) ماضی کے تجربات سے سبق سیکھنے کی اور اب آگے بڑھنے کی اہمیت پر بات کی۔‘
اس سے پہلے انیس سو ترپن میں امریکی وزیر خارجہ لیبیا گئے تھے۔ لیبیا کے وزیر خارجہ عبدالرحمان نے کہا کہ ’لیبیا بدل گیا ہے، امریکہ بدل گیا ہے، دنیا بدل چکی ہے۔ اب ماضی کو بھول جانا چاہیے۔‘
امریکی وزیر خارجہ کا یہ دورہ ان کے شمالی افریقہ کے دورے کا حِصّہ ہے۔ وہ تیونس، الجیریا اور مراکش کا بھی دورہ کریں گی۔ بی بی سی کے نامہ نگار رانا جواد تریپولی سے بتاتے ہیں کہ چھ برس قبل اس قسم کے دورے کا گمان بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔
امریکی وزارت خارجہ کے مطابق اس دورے سے ثابت ہوتا ہے کہ امریکہ مستقل دشمنی میں یقین نہیں رکھتا اور یہ کہ جوہری اسلحہ کا پھیلاؤ روکنے کی بش انتظامیہ کی پالیسی کامیاب ثابت ہوئی ہے۔
واشنگٹن اس دورے سے شمالی کوریا اور ایران جیسے ممالک کویہ پیغام دینا چاہتا ہے کہ وہ بھی امریکہ سےاپنے تعلقات استوار کر سکتےہیں۔لیبیا کی سن دو ہزار تین میں سفارتی اعتبار سے تنہائی ختم ہو گئی تھی جب اس نے وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے حصول کی کوشش ترک کر دی تھی۔