پنج شنبه 01/می/2025

ایران کو تباہ کن حملے کا سامنا ہوسکتا ہے:سرکوزی کا انتباہ

جمعہ 5-ستمبر-2008

فرانس کے صدر نکولا سرکوزی نے ایران کو خبردار کیا ہے کہ اس کی جانب سے ایٹمی پروگرام پر کام جاری رکھنے کے اصرار کی وجہ سے اسے اسرائیل کے تباہ کن حملے کاخطرہ ہوسکتاہے.

وہ جمعرات کوشام کے دارالحکومت دمشق میں اپنی شامی ہم منصب بشارالاسد،قطری امیر شیخ حمد بن خلیفہ الثانی اور ترک وزیر اعظم رجب طیب اردگان کے ساتھ چارملکی سربراہ اجلاس سے خطاب کر رہے تھے.

سرکوزی نے ایران کو خبردار کیا کہ یورینیم کی افزودگی کو منجمد کرنے کے لئے عالمی مطالبے کو تسلیم نہ کرنے پراسے اقوام متحدہ کے چوتھے مرحلے کی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑے گا.

افزودہ یورینیم کو ایٹمی ہتھیاریوں کی تیاری میں استعمال کیا جاسکتاہے لیکن ایران مسلسل اس بات سے انکار کرتا چلا آرہا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام ایٹم بم تیارکرنے کے لئے ہے بلکہ اس کا کہنا ہے کہ وہ جوہری توانائی سے اپنی آبادی کی ضروریات کوپوراکرنے کے لئے صرف بجلی پیدا کرنا چاہتا ہے.

امن وامان کی بدترصورتحال

شامی صدربشارالاسد نے اپنے تئیں خبردار کیا کہ لبنان میں سلامتی کی صورت حال ابتر ہے.انہوں نے لبنانی حکومت پرزوردیا کہ وہ ملک کے شمال میں غیر ملکی انتہا پسندوں کے خلاف کارروائی کرے.

”لبنان میں کوئی بھی مثبت قدم اس وقت تک بے سود رہے گا جب تک اس کے شمال میں انتہاپسندوں اور سلفیوں کا مسئلہ حل نہیں ہوجاتا جنہیں بعض ملکوں کی جانب سے سرکاری طورپر حمایت حاصل ہے”. ان کا ملکوں کا نام لئے بغیر کہنا تھا.

بشارالاسد نے کہا کہ انہوں نے لبنانی صدر مائیکل سلیمان کو ….اگست کے وسط میں ان کے دمشق کے دورہ کے موقع پر….. لبنان کے شمال میں مزید فوج فوری طور پر بھیجنے کی تجویز پیش کی تھی.

”مسئلہ کے حل کے لئے فوج کی موجودگی ضروری ہے اور لبنان انتہاپسندوں کی موجودگی کی وجہ سے کبھی استحکام حاصل نہیں کر سکے گا”.ان کا مزید کہنا تھا.

مذاکرات کا التوا

اسرائیل اور شام کے درمیان مذاکرات پر روشنی ڈالتے ہوئے صدر بشارالاسد نے کہا کہ دونوں حریف ملکوں کے درمیان براہ راست بات چیت کے لئے تجاویز کی ایک فہرست ترک ثالثوں کے ذریعےاسرائیل کو بھیج دی گئی ہے.”ہم ترکی کے ذریعے پیش کئے گئے چھے نکات پر اسرائیل کے رد عمل کا انتظار کررہے ہیں”.اسد نے کہا.

اسرائیل اور شام نے گزشتہ 60 سال کے دوران حالت جنگ میں رہنے کے بعد مئی2008ء میں ترکی کی ثالث میں بالواسطہ مذاکرات کاآغاز کیا تھا .دونوں ملکوں کے درمیان 8سال پہلے بات چیت اسرائیل کے زیر قبضہ گولان کی پہاڑیوں کے مسئلہ پرالتوا کا شکار ہوگئی تھی.

دونوں ملکوں کے درمیان تازہ بات چیت کا پانچواں دور انقرہ میں آئندہ اتوارکوہونا تھا لیکن شامی صدر کے بہ قول اسرائیلی مذاکرات کار کے استعفیٰ کی وجہ سے یہ دورالتوا کاشکارہوگیا ہے.

فرانسیسی صدر نکولا سرکوزی نے اسرائیل اور شام کے درمیان مذاکرات میں ثالثی کرنے پر ترکی کے کردارکو سراہا اور کہا کہ فرانس دونوں ملکوں کے درمیان براہ راست مذاکرات کے لئے درکار کوئی بھی مدد دینے کو تیار ہے.

چارملکی سربراہ ملاقات میں ان کا کہنا تھا کہ ”میں نے اسدکوبتایا ہے کہ اگراسرائیلی اصول تسلیم کر لیتے ہیں اورشام اور اسرائیل کے درمیان براہ راست مذاکرات شروع ہوتے ہیں تو فرانس سفارتی،سیاسی،اقتصادی اور فوجی امداد دینے کو تیار ہے”.

دونوں ملکوں کے درمیان مذاکرات میں بنیادی اختلافی نکتہ گولان کی پہاڑیاں ہیں جن پر اسرائیل نے 1967ء کی جنگ کے دوران قبضہ کر لیا تھااور 1981ء میں شام کے مزید علاقے ہتھیالیاتھے لیکن عالمی برادری نے اس کے اس اقدام کو تسلیم نہیں کیا تھا.

یورپی یونین کے موجودہ صدرملک فرانس کے سربراہ سرکوزی نے گزشتہ روز شامی صدر سے ملاقات میں اس توقع کا اظہار تھاکیا کہ ان کا ملک اور یورپی یونین بھی امریکا کے ساتھ خطے خاص طور پر شام اور اسرائیل کے درمیان سفارت کاری کے لئے اہم کردارادا سکتے ہیں.

تاہم یورپی یونین کے شام کے ساتھ امن بات چیت میں زیادہ کردار کے بارے میں صہیونی ریاست اسرائیل نے کسی سرگرمی کا مظاہرہ نہیں کیا.اس کا کہنا ہے کہ اس عمل میں پیش رفت کے لئے شام کی پالیسیوں میں سنجیدہ تبدیلیوں کی ضرورت ہے.

 

مختصر لنک:

کاپی