امریکا کی وزیر خارجہ کونڈا لیزا رائس صدر جارج بش کے آٹھ سالہ دور اقتدار کے خاتمے سے چار ماہ قبل لیبیا کا دورہ کر کے ایک بڑی سفارتی کامیابی حاصل کرنے والی ہیں۔
اس دورے کے ذریعے امریکا ایران اور جنوبی کوریا کو یہ پیغام دینا چاہتا ہے کہ وہ بھی مغربی ممالک سے تعاون کے ذریعے فوائد حاصل کر سکتے ہیں۔ امریکی وزیر خارجہ کا دورہ طرابلس، لیبیا کی جانب سے اپنا ایٹمی اور حیاتیاتی ہتھیاروں کا پروگرام ختم کرنے کے فیصلے کی توثیق شمار کیا جائے گا۔
چار ستمبر سے سات ستمبر تک جاری رہنے والے اس دورے کے دوران کونڈالیزا رائس الجزائر، مراکش، تیونس اور پرتگال بھی جائیں گی۔ یاد رہے کہ واشنگٹن اور لیبیا کے درمیان سفارتی تعلقات میں 1981 سے تعطل چلا آ رہا ہے، امریکا ماضی میں طرابلس میں معمر قذاقی کی حکومت پر دہشت گردی کی حمایت کا الزام عاید کرتا چلا آیا ہے۔
پچپن برسوں میں کسی بھی امریکی وزیر خارجہ کا لیبیا کا یہ پہلا دورہ ہے، جس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات بحال ہو جائیں گے۔ جان فوسٹر ڈیولزامریکا کے آخری وزیر خارجہ تھے کہ جنہوں نے 1953 میں لیبیا کے بادشاہ ادریس سینوسی سے ملاقات کی تھی۔ دفتر خارجہ کے ترجمان سین میکرومیک نے کونڈالیز رائس کے دورہ طرابلس کو امریکہ۔لیبیا کے درمیان باہمی تعلقات کے حوالے سے ایک اہم پیش رفت قرار دیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ” یہ دورہ امریکا کے ایٹمی اسلحہ کی عدم افزودگی کی پالیسی کے ضمن میں ایک اہم سنگ میل ثابت ہو گا۔” امریکی وزیر خارجہ دورے کے دوران لیبیا کے صدر کرنل معمر قذاقی سے ملاقات کریں گی۔
یاد رہے کہ ایک ماہ قبل دونوں ممالک نے ایک دوسرے کی جارحانہ پالیسیوں کا نشانہ بننے والے خاندانوں کو معاوضہ ادا کرنے کے سلسلے میں ایک معاہدہ کیا تھا۔اس معاہدے کے تحت لیبیا، 1988 میں امریکی جہاز پر لاکربی (سکاٹ لینڈ) کے مقام دھماکے میں ہلاک ہونے والے مسافروں کے خاندانوں کو معاوضہ ادا کرے گا۔ اسی معاہدے کے تحت امریکا بھی طرابلس اور بنغازی پر فضائی حملوں کا نشانہ بننے والوں کے خاندانوں کو معاوضہ ادا کرنے کا پابند ہے۔ اپریل 1986میں کئے جانے والے ان حملوں میں معمر قذافی کی لے پالک بیٹی بھی ہلاک ہو گئی تھی۔