’’غزہ آزادکرو تحریک ‘‘ایک جر ت مندانہ اقدام کا نام ہے- اس میں مختلف مذاہب اور ثقافتی پس منظر رکھنے والے لوگ شریک ہیں جو اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ غزہ کے پندرہ لاکھ باشندوں کو آزادی ملنی چاہیے- اسرائیلی تسلط کی وجہ سے یہ شہر قید خانے میں تبدیل ہوچکاہے-
اس بحری مہم میں جو لوگ شریک ہیں ان میں اکاسی سالہ کیتھولک راہبہ اور سابق وزیراعظم ٹونی بلیئر کی بہن نیز انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والے مسلمان‘ مسیحی اور یہودی کارکنان شامل ہیں اگر یہ سفر بخیر و خوبی مکمل ہوگیا تو دوکشتیاں ’’ایس ایس لبرٹی ‘‘ اور ’’آزادغزہ‘‘غزہ کے بچوں کو ادویات اور دیگر ضروریات زندگی فراہم کرسکیں گی – ایک سال سے زیادہ عرصے پر محیط محاصرے کی وجہ سے غرہ کے سینکڑوں بچے اور دیگر جاں بحق ہوچکے ہیں- اسرائیل ‘محاصرہ ختم کرنے کے لئے آنے والی دو کشتیوں کا راستہ روکنے کے لئے کشمکش میں مبتلا ہے اور اعلان کیا ہے کہ دونوں کشتیوں کو غزہ کے ساحل پر پہنچنے نہ دیا جائے گا-
اسرائیلی حکومت کے چند عہدیداران ایسے بھی ہیں جس میں انہوں نے اس امکان کا اظہار کیا کیا ہے کہ دونوں کشتیوں کے خلاف تشدد کا استعمال ہوسکتا ہے- اسرائیل نے دنیا کو یہ بتانا ترک نہیں کیاہے کہ اس کا غزہ پر قبضہ نہیں ہے لیکن یہ دعوی سازش پر مبنی جھوٹ نہیں کیونکہ اسرائیلی حکومت کوشش کررہی ہے کہ غزہ کی پٹی اس کے ساحل‘ اس کی فضا ئیہ اور سرحدی راہداریوں پر اپنا کنٹرول مضبوط تر کرلے- غزہ کی پٹی کا مسلسل محاصرہ انسانیت کے چہرے پر دھبہ ہے –
یہ دھبہ امریکہ کے لئے حیرت ہے جو مسلسل اسرائیل کی حمایت کررہاہے تاکہ وہ معصوم فلسطینیوں کے خون سے اپنے ہاتھ رنگتارہے‘ ان فلسطینیوں کا واحد جرم یہ ہے کہ وہ اپنے لئے ایسی حکومت منتخب کرنا چاہتے ہیں کہ جو تل ابیب اور واشنگٹن کا دست نگرنہ ہو- یہ داغ یورپی ممالک کے چہرے پر ہے کہ جو بڑے اطمینان سے اسرائیلی مظالم کا اسی طرح جائزہ لے رہے ہیں جس طرح ستر برس قبل نازی ‘ تیسری ریخ میں کررہے تھے لیکن سب سے بڑی شرم ناک بات عرب ممالک خصوصاً مصرکے لئے ہے کہ جو رفح کی راہداری نہ کھول کر اسرائیلی عزائم کی تکمیل کررہا ہے-
میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ ہم عرب اور مسلمان ‘ اسرائیل پر کس طرح الزام عائد کرسکتے ہیں‘ اسرائیل تو ایک مجرم ریاست ہے جس کی کوشش یہ ہے کہ فلسطینیوں کو دنیا کے نقشے سے مٹا کر رکھ دے لیکن مصر کا رویہ ناقابل فہم ہے جو راہداریاں کھولنے کے لئے تیار نہیں ہے – میں مصری حکومت سے یہ جاننا چاہتاہوں کہ وہ مزید کتنی ہلاکتوں کا انتظار کررہے ہیں تاکہ راہداریاں کھولی جاسکیں‘ قابل شرم ’’ایس ایس لبرٹی ‘‘اور ’’ آزاد غزہ‘‘ نامی کشتیوں پر سوار لوگوں کو میں انتہائی احترام کی نگاہ سے دیکھتاہوں‘ میں آپ کی ہمت و حوصلہ اور انسان دوستی کے لئے اور اپنی ذات سے لا تعلق ہو کر سفر کرنے پر سلام پیش کرتاہوں –
آپ نے جو موقف اختیار کیا ہے وہ تاریکی میں روشنی کی کرن ہے- غزہ کے بے کس ‘ بے بس اور ستم رسیدہ بچوں اور عورتوں کے لئے آپ کی کوششیں ظاہر کرتی ہیں کہ دنیا میں ایسے لوگ موجود ہیں جو کسی قسم کے ظلم کے گے آج بھی نہیں جھکتے-
میں بوڑھی راہبہ این مونٹ گومری کو سلام پیش کرنا چاہتا ہوں جن کا سیکرڈہارٹ آرڈر ‘ سے تعلق ہے جنہوں نے اس بڑھاپے کی عمر میں اتنے مشکل اور تکلیف دہ سفر کا انتخاب کیا- میں صحافی اور براڈ کاسٹر لارنن بوتھ کو سلام عقیدت پیش کرنا چاہتا ہوں جنہوں نے ثابت کردیا ہے کہ صحافت صرف ’’اخلاقی غیر جانبدار کردار ‘‘ ہے‘ حقیقی صحافیوں میں اس قدر جرات ہونی چاہیے کہ جو انصاف کے لئے عملی اقدامات میں بھی حصہ لے سکیں-
میں پروفیسر جیف ہالیبر کو بھی سلام عقیدت پیش کرنا چاہتا ہوں جو مکانات کی مسماری کے خلاف اسرائیلی کمیٹی (ICHAD)کے سربراہ ہیں جنہوں نے اس بحری سفر میں شمولیت کی ہے- وہ یہ بیان بھی دے چکے ہیں کہ دنیا بھر میں ایسے یہودی بھی موجود ہیں جو فلسطین کے خلاف اسرائیل کے نازی طرز عمل پر رضا مندنہیں ہیں ‘ ان کا کہناہے کہ لوگوں کو قید خانے میں ڈالنا ‘ یہودی تاریخ سے متصادم ہے –
میں یونان کی قانون سازکونسل کے رکن ٹاسوس کو راکیزکو بھی سلام پیش کرناچاہتا ہوں جنہوں نے غزہ کے گرد خاموشی کی دیوار کو توڑنے کا فیصلہ کیاہے اور اس کے لئے غزہ کی پٹی تک پہنچ رہے ہیں- میں ڈاکٹریال لارودی کو بھی سلام عقیدات پیش کرناچاہتا ہوں جنہوں نے اسرائیل کی جانب سے تمام تر دھمکیوں کے باوجود غزہ تک پہنچنے کا فیصلہ کیاہے-
میں مصنفہ‘ ٹی وی پروگرام اور قیام امن کی کارکن ی ون یر ڈلے کو بھی سلام عقیدت پیش کرنا چاہتاہوں جنہوں نے فلسطین کے لئے افغانستان کے لئے اور دنیا بھر میں قیام امن کے لئے خدمات سرانجام دیں- میں ایک ایک کرکے پ سب کو ہدیہ تبریک پیش کرناچاہتاہوں کیونکہ آپ نے یہ کام انسانیت کی بہتری کے لئے کیاہے- خدا آپ کاحامی و ناصر ہو ‘ آمین-