اس بار اسرائیل دو ایسے قیدیوں کو کر رہا ہے جن کے ’ہاتھ اسرائیلیوں کے خون سے رنگے ہیں‘۔ عام طور پر ایسے رہائی کسی اسرائیلی کو زندہ یا لاش کی صورت میں حاصل کرنے کے لیے عمل میں آتی رہی ہے۔
ہیبرون کے قریب اپنے گاؤں سے بات کرتے ہوئے ام علی نے کہا کہ ماضی کے تجربات اور بار بار امیدوں کے قتل کی وجہ سے وہ اس خبر یقین کرنے کا حوصلہ نہیں کر پا رہی کہ ابو علی یطا کو رہا کیا جا رہا ہے۔
لیکن اسرائیل میں متاثرین کے لیے امدادی کام کرنے والی تنظیم الماگور کا کہنا ہے کہ جن لوگوں نے فلسطینی حملوں میں اپنے عزیزوں کو کھویا ہے ان کے لیے اس کے لیے اس ملاپ کو قبول کرنا آسان نہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’آپ انہیں ٹیلیویژن کے سامنے آنکھیں پھاڑے اس ملاپ کر خبروں کو سنتا پائیں گے۔ ان کی محسوسات یہ ہیں کہ ایک ایسے آدمی کو رہا کیا جا رہا ہے جس نے نہ صرف قتل کرنے میں کامیابی حاصل کی بلکہ اب وہ اپنی زندگی اپنے خاندان کے ساتھ گزارے گا اور اس کے نشو و نما میں حصہ لے گا‘۔
یہ تنظیم قیدیوں کو بلا تخصیص رہا کرنے کے خلاف ہے اور کہتی ہے کہ ایسی مفاہمتوں کے تحت رہائی پانے والے قیدیوں کے ہاتھوں سنہ دو ہزار کے بعد سے ایک سو اسی اسرائیلی ہلاک ہوئے ہیں۔
بدقسمتی سے 1979 کے حملے دوران صمدرہ ہاران اس وقت خود اپنی ایک دو سالہ بیٹی کی جان لینے کا باعث بن گئی جب انہوں نے اسے حملہ آوروں سے بچانے کے لیے اس آواز دبانے کی کوشش کی تھی۔
اس کے بدلے میں حزب اللہ ان کے دو اسرائیلی فوجیوں کے باقیات اسرائیل کے حوالے کریں گے جو 2006 کے اس واقعے کے دوران گرفتار کیے گیے تھے جس کے بعد اسرائیل نے لبنان پر حملے کر دیا تھا۔
صمدرہ ہاران کے لیے یہ تبادلہ دیکھنے کے انتظامات کیے گئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’یہ انتہائی دشوار تھا اور ایسے ہی ہوں گے آنے والے دن۔ میرے زخم ہرے ہو گئے۔ اب بھی ویسا ہی غم ہے جیسا شروع میں تھا‘۔
اپنے شوہر اور اپنے ساتھ کام کرنے والے ایک شخص کے لیے کام کرنے والے کی واپسی کے لیے باقاعدہ مہم چلانے والی کارنٹ گولڈویزر کا کہنا ہے کہ ان کے لیے بھی یہ ایک انتہائی نازک اور جذباتی مرحلہ ہے کیونکہ وہ بھی اسی علاقے کی ہیں جہاں کی صمدرہ ہاران ہیں اور وہ صمدرہ کے دکھ اور ان پر گزرنے والے حالات سے واقف ہیں۔
لیکن ان کا کہنا ہے ’دو سال تک میں مہم چلاتی رہی کے میرے شوہر کو واپس لایا جائے۔ دو سال تک میں اکیلی جاتی اور اکیلی لوٹتی رہی اور اب اس تمام کے بعد میرے شوہر واپس آ رہے ہیں اور وہ بھی زندہ نہیں‘۔
غزہ میں اپنے گھر سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان کا خاندان ’انگاروں‘ پر انتظار کر رہا ہے۔ محمد چار بچوں کے والد ہیں اور حماس گیلاڈ شالٹ کے بدلے میں ان کی رہائی چاہتی تھی۔
محمد کو ان دو اسرائیلی فوجیوں کی موت کی بنا پر سزا دی گئی تھی جو آپریشن کے دوران مارے گئے۔ نعمر کا کہنا کہ ’میرے والد نے کسی کو نہیں مارا۔ انہوں نے صرف وہی کیا جو ہر مقبوضہ ملک کا شہری کر سکتا ہے۔ اب انہیں اسرائیلی جیل میں بیس سال ہو گئے ہیں اور انہیں رہا ہونا ہی چاہیے‘۔
لیکن امِ علی کا کہنا ہے کہ سارا معاملے میں کوئی توازن نہیں ہے۔ ’اسرائیل روزانہ کئی فلسطینیوں کو ہلاک کر رہا ہے تو ہمیں ہی اس کی سزا کیوں دی جا رہی ہے اور انہیں کیوں نہیں دی جا رہی‘۔