شنبه 03/می/2025

سہ فریقی خوشیوں اور دکھ کا تبادلہ

منگل 26-اگست-2008

اسرائیل نے دو سو فلسطینی قیدیوں کو رہا کیا ہے۔پیر کو ہونے والی رہائی امِ علی کے لیے بچوں کو تنہا پالنے کی ذمہ داری ختم کر دے گی۔ وہ تیسری اولاد کے لیے سات ماہ کی امید سے تھی جب ان کے شوہر محمد ابو علی کو غربِ اردن کے شہر ہیبرون میں اسرائیلی محفوظ فورس کے ایک رکن کو قتل کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔

اس بار اسرائیل دو ایسے قیدیوں کو کر رہا ہے جن کے ’ہاتھ اسرائیلیوں کے خون سے رنگے ہیں‘۔ عام طور پر ایسے رہائی کسی اسرائیلی کو زندہ یا لاش کی صورت میں حاصل کرنے کے لیے عمل میں آتی رہی ہے۔

دونوں جانب انتہائی جذباتی حالت ہے۔ اسرائیل کے جانب اس لیے کہ ’قاتلوں‘ کو رہا کیا جا رہا ہے۔ اور فلسطین کی طرف اس لیے کہ ساڑھے آٹھ ہزار فلسطینی اسرائیل کی قید میں ہیں۔ جس کی وجہ سے سینکڑوں خاندان متاثر ہیں جو غرب اردن اورغزہ میں رہتے ہیں۔
ہیبرون کے قریب اپنے گاؤں سے بات کرتے ہوئے ام علی نے کہا کہ ماضی کے تجربات اور بار بار امیدوں کے قتل کی وجہ سے وہ اس خبر یقین کرنے کا حوصلہ نہیں کر پا رہی کہ ابو علی یطا کو رہا کیا جا رہا ہے۔ 

لیکن اسرائیل میں متاثرین کے لیے امدادی کام کرنے والی تنظیم الماگور کا کہنا ہے کہ جن لوگوں نے فلسطینی حملوں میں اپنے عزیزوں کو کھویا ہے ان کے لیے اس کے لیے اس ملاپ کو قبول کرنا آسان نہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ’آپ انہیں ٹیلیویژن کے سامنے آنکھیں پھاڑے اس ملاپ کر خبروں کو سنتا پائیں گے۔ ان کی محسوسات یہ ہیں کہ ایک ایسے آدمی کو رہا کیا جا رہا ہے جس نے نہ صرف قتل کرنے میں کامیابی حاصل کی بلکہ اب وہ اپنی زندگی اپنے خاندان کے ساتھ گزارے گا اور اس کے نشو و نما میں حصہ لے گا‘۔

یہ تنظیم قیدیوں کو بلا تخصیص رہا کرنے کے خلاف ہے اور کہتی ہے کہ ایسی مفاہمتوں کے تحت رہائی پانے والے قیدیوں کے ہاتھوں سنہ دو ہزار کے بعد سے ایک سو اسی اسرائیلی ہلاک ہوئے ہیں۔

جن خاندانوں کے لوگ مارے گئے جون میں صمدرہ ہاران نے فیصلہ کیا کہ وہ 1979 میں اپنے شوہر، ایک پولیس والے اور بیٹی کو کو قتل کرنے والے سمیر قنتار کی رہائی کے خلاف احتجاج نہیں کرے گی۔

بدقسمتی سے 1979 کے حملے دوران صمدرہ ہاران اس وقت خود اپنی ایک دو سالہ بیٹی کی جان لینے کا باعث بن گئی جب انہوں نے اسے حملہ آوروں سے بچانے کے لیے اس آواز دبانے کی کوشش کی تھی۔

اس کے بدلے میں حزب اللہ ان کے دو اسرائیلی فوجیوں کے باقیات اسرائیل کے حوالے کریں گے جو 2006 کے اس واقعے کے دوران گرفتار کیے گیے تھے جس کے بعد اسرائیل نے لبنان پر حملے کر دیا تھا۔

صمدرہ ہاران کے لیے یہ تبادلہ دیکھنے کے انتظامات کیے گئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’یہ انتہائی دشوار تھا اور ایسے ہی ہوں گے آنے والے دن۔ میرے زخم ہرے ہو گئے۔ اب بھی ویسا ہی غم ہے جیسا شروع میں تھا‘۔

اپنے شوہر اور اپنے ساتھ کام کرنے والے ایک شخص کے لیے کام کرنے والے کی واپسی کے لیے باقاعدہ مہم چلانے والی کارنٹ گولڈویزر کا کہنا ہے کہ ان کے لیے بھی یہ ایک انتہائی نازک اور جذباتی مرحلہ ہے کیونکہ وہ بھی اسی علاقے کی ہیں جہاں کی صمدرہ ہاران ہیں اور وہ صمدرہ کے دکھ اور ان پر گزرنے والے حالات سے واقف ہیں۔

لیکن ان کا کہنا ہے ’دو سال تک میں مہم چلاتی رہی کے میرے شوہر کو واپس لایا جائے۔ دو سال تک میں اکیلی جاتی اور اکیلی لوٹتی رہی اور اب اس تمام کے بعد میرے شوہر واپس آ رہے ہیں اور وہ بھی زندہ نہیں‘۔

نعمر محمد یوسف اس وقت نو سال کے تھے جب ان کے والد کو گرفتار کر کے تین بار عمر قید اور تیس سال اضافی قید کی سزا دی گئی۔ اب ان کے عمر اٹھائیس سال ہے۔ہیں وہ سب کے سب رہائیوں کے مخالف نہیں ہیں۔
غزہ میں اپنے گھر سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان کا خاندان ’انگاروں‘ پر انتظار کر رہا ہے۔ محمد چار بچوں کے والد ہیں اور حماس گیلاڈ شالٹ کے بدلے میں ان کی رہائی چاہتی تھی۔

محمد کو ان دو اسرائیلی فوجیوں کی موت کی بنا پر سزا دی گئی تھی جو آپریشن کے دوران مارے گئے۔ نعمر کا کہنا کہ ’میرے والد نے کسی کو نہیں مارا۔ انہوں نے صرف وہی کیا جو ہر مقبوضہ ملک کا شہری کر سکتا ہے۔ اب انہیں اسرائیلی جیل میں بیس سال ہو گئے ہیں اور انہیں رہا ہونا ہی چاہیے‘۔

لیکن امِ علی کا کہنا ہے کہ سارا معاملے میں کوئی توازن نہیں ہے۔ ’اسرائیل روزانہ کئی فلسطینیوں کو ہلاک کر رہا ہے تو ہمیں ہی اس کی سزا کیوں دی جا رہی ہے اور انہیں کیوں نہیں دی جا رہی‘۔

مختصر لنک:

کاپی