فلسطینی اتھارٹی عوام کی نمائندہ نہیں ہے وہ کوئی معاہدہ کرنے کی مجاز نہیں ہے- ان کی طرف سے اسرائیل سے کیا جانے والا کوئی معاہدہ قبول نہیں کریں گے- ان خیالات کا اظہار اسلامی تحریک مزاحمت (حماس) کے ترجمان سامی ابوزہری نے مرکزاطلاعات فلسطین کو انٹرویو میں کیا- انٹرویو کا متن زائرین کے پیش خدمت ہے-
عبرانی اخبار معاریف نے فلسطینی ریاست کے متعلق اسرائیلی نظریے کا انکشاف کیاہے جو امریکی انتظامیہ کے حوالے کردیاگیاہے- امریکی انتظامیہ اسلحہ اور عسکری وجود سے پاک فلسطینی ریاست کا قیام عمل میں لائے گی- آپ اس انکشاف کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟
جواب :اس موقع پر فلسطینی ریاست کے قیام کی بات اور یہ دعوی کہ اسرائیل فلسطینی ریاست کے قیام کا نظریہ رکھتی ہے – دنیا کی نکھوں میں دھول جھونکنا ہے- دنیا کو گمراہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ اسرائیل قیام امن چاہتاہے‘ اصل مشکل فلسطینیوں کی جانب سے ہے اور وہی قیام امن کے عمل میں رکاوٹ ہیں- فلسطینی ریاست کے قیام کی باتیں ایسے موقع پر کی جا رہی ہیں جب امریکی صدر بش وائٹ ہاؤس چھوڑنے والے ہیں-
رہا سوال اسرائیلی نظریے کے متعلق تو اس میں کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ اسرائیل فلسطینی فضا‘ کراسنگز حتی کہ زمین پر قبضہ برقرار رکھنا چاہتاہے- قابض حکومت کے فریبوں میں ہم آنے والے نہیں ہیں – اس کے گمراہ کن نظریے قابل قبول نہیں ہیں-
ہم اچھی طرح ادراک رکھتے ہیں کہ اسرائیل اس طرح کی باتیں کرکے فلسطینی پناہ گزینوں کی واپسی‘ مسئلہ بیت المقدس اور دیگر حقوق سے انکار پر مہر ثبت کرنا چاہتاہے- حماس ہر حال میں اسرائیل کو تسلیم کرنے اور عارضی فلسطینی ریاست کے قیام کو مسترد کرتی ہے-
حالیہ دنوں میں مسئلہ فلسطین کے حتمی حل کے لئے اسرائیلی میڈیا میں بہت سی تجویزیں پیش کی گئی ہیں- آپ اس کو کس نظرسے دیکھتے ہیں ؟
جواب :یہ معاملہ امریکی صدر بش کی رخصتی سے مرتبط ہے – میڈیا میں تاثر دینے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ صدر بش نے مشرق وسطی کے حوالے سے کچھ نہ کچھ کیاہے- ہم واضح کردینا چاہتے ہیں کہ میثاق مکہ کی خلاف ورزی کے بعد پی ایل او فلسطینی عوام کی جانب سے مذاکرات کرنے کی مجاز نہیں ہے- مزید براں فلسطینی صدر محمود عباس کی مدت صدارت کے بھی صرف چند ماہ رہ گئے ہیں-
اسرائیلی تجاویز کے متعلق فلسطینی اتھارٹی کے ذمہ داران میں تضاد پایا جاتاہے- کبھی وہ اسے تسلیم کرنے کی بات کرتے ہیں تو کبھی انکار کرتے ہیں- آپ اس تضاد پر کیا کہیں گے؟
جواب :فلسطینی اتھارٹی کا کردار ان تجاویز کو قبول یا مسترد کرنا نہیں ہے بلکہ اسرائیل سے ہم آہنگی ہے-
اسرائیل اور فلسطینی اتھارٹی کے درمیان غیر اعلانیہ مذاکرات کی باتیں ہوتی ہیں- کیا یہ حقیقت ہے ؟
جواب: بہت سے شواہد ہیں جس سے معلوم ہوتاہے کہ حتمی حل کے لئے اسرائیل اور فلسطینی اتھارٹی کے درمیان غیر اعلانیہ مذاکرات جاری ہیں لیکن ہمارے لئے یہ بات اہمیت نہیں رکھتی کہ مذاکرات اعلانیہ ہو رہے ہیں یا غیر اعلانیہ بلکہ ہم یہ واضح کردینا چاہتے ہیں کہ فلسطینی اتھارٹی کے مذاکرات کار مسائل کے حل کے لئے قانونی حیثیت نہیں رکھتے بلکہ وہ ابتدائی طور پر بھی کوئی معاہدہ کرنے کے مجاز نہیں ہیں- وہ فلسطینی عوام کے منتخب کردہ نہیں ہیں- فلسطینی اعلی مذاکرات کار نے بند گلی میں داخل ہونے کا جوبیان دیا ہے اس کامقصد صرف اور صرف فلسطینی عوام کو کسی بھی حل کے لئے تیار کرناہے-
:فلسطینی اتھارٹی اور اسرائیل کے درمیان ان مذاکرات کے نتیجے میں جو معاہدہ طے پائے گا آپ اس کو قبول کریں گے ؟
جواب :ہم ایک دفعہ پھر واضح کرتے ہیں کہ فلسطینی فریق کوئی قانونی حیثیت نہیں رکھتا- وہ فلسطینی عوام کا نمائندہ نہیں ہے – ان کی طرف سے کوئی بھی معاہدہ فلسطینی عوام کی ترجمانی نہیں ہوگا لہذا اس پر عمل کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا- فلسطینی اپنے حقوق کے خلاف کی جانے والی ہر سازش کو ناکام بنادیں گے- جس میں مقبوضہ بیت المقدس فلسطینی مہاجرین کی واپسی اور دیگر حقوق شامل ہیں-