امریکی انتظامیہ نے کہا ہے کہ عراق کے ساتھ مجوزہ سکیورٹی معاہدے کی تفصیلات ابھی طے ہونا باقی ہیں جبکہ اس سے پہلے عراقی مذاکرات کاروں کے سربراہ نے کہا تھا کہ امریکی فوج کے 2011ء تک ملک سے انخلاء کے لئے نظام الاوقات سے متعلق معاہدہ طے پاگیا ہے.
وائٹ ہاٶس کے ترجمان گورڈن جانڈرےنے واشنگٹن میں ایک بیان میں کہا کہ”معاہدے کے بارے میں بات چیت کا سلسلہ جاری ہے اور یہ ابھی طے نہیں پایا”.
عراق کے اعلیٰ مذاکرات کار محمد الحاج حمود نے جمعہ کو ایک بیان میں کہا تھا کہ مذاکرات کاروں نے ڈیل کو حتمی شکل دے دی ہے جس کے تحت 2011ء تک عراق سے امریکی فوجوں کا مکمل انخلاء ہوجائے گا اور اس طرح عراق پر آٹھ سالہ غیر ملکی قبضہ بھی ختم ہوجائے گا.
حمود کے مطابق 27 نکات پر مشتمل ڈیل کے تحت تمام جنگجو امریکی فوجی اگلے سال جون تک عراق کے شہروں سے چلے جائیں گے.انہوں نے کہا کہ امریکی صدر جارج ڈبلیو بش پہلے ہی اس معاہدے کی منظوری دے چکے ہیں اوراب عراقی لیڈروں کی جانب سے اس کی توثیق کی ضرورت ہے.
”عراق اور امریکا نے 2011ء کے آخر تک تمام امریکی فوجیوں کے انخلاء پر اتفاق کیا ہے جبکہ لڑاکا دستے جون 2009ء تک عراق کے شہروں سے چلے جائیں گے .مذاکرات کاروں کا کام ختم ہوچکا ہے اور اب معاہدے کی منظوری دونوں ملکوں کی قیادت پر منحصر ہے”.حمود کا کہنا تھا.
سکیورٹی معاہدے کے تحت عراق میں دسمبر2008 ء کے بعد امریکی فوجوں کوتعینات رکھنے کا فیصلہ کیا جائے گا.اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد کے تحت عراق میں غیر ملکی فوجوں کی تعیناتی کا مینڈیٹ اورقانونی جوازدسمبر میں ختم ہورہا ہے.
امریکی صدربش اورعراقی وزیراعظم نوری المالکی نے گزشتہ سال نومبر میں مجوزہ معاہدے کو 31 جولائی تک حتمی شکل دینے کی منظوری دی تھی.
دونوں ملکوں کے درمیان بعض امور کی وجہ سے معاہدہ طے پانے میں تاخیرہورہی ہے جن میں عراقی قیادت کی جانب سے امریکی فوج کے انخلاء کا نظام الاوقات دینے کامطالبہ،امریکی فوج کتنے فوجی اڈے اپنے پاس رکھے گی اورکیاامریکی فوجیوں کو عراقی قانون سے تحفظ حاصل ہوگا یا نہیں.جیسے تصفیہ طلب امور نمایاں ہیں.
امریکی فوج کے ایک عہدے دار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پرفرانسیسی خبررساں ادارے اے ایف پی کوجمعرات کے روز بتایا کہ ”معاہدے کے تحت زمینی صورت حال کے پیش نظرعراقی شہروں سے امریکی فوجیوں کا انخلاء آئندہ سال جون تک ہوسکتا ہے”.