گزشتہ ہفتے انہوں نے لاتعداد مرتبہ دہرایا ہوا جملہ دہرایا کہ اگر اسرائیلی حکومت نے دو ریاستی حکومت کے حل کو قبول نہ کیا تو وہ ایک ریاستی حل کی وکالت شروع کردے گی- رام اللہ میں فتح کے نمائندوں سے بات جیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ فلسطینی اتھارٹی 1967ء میں اسرائیل کے تسلط میں جانے والے علاقوں پر فلسطینی ریاست کے قیام سے کم کسی حل کو تسلیم نہیں کرے گی، اور ’’القدس الشریف‘‘ اس کا دارالحکومت ہوگا- احمد قریع اور دیگر راہنماء کئی برسوں سے اسی قسم کے خطرات سے آگاہ کرتے رہے ہیں- یہ لیڈر تاہم یہ جرأت نہیں رکھتے کہ بے جان اوسلو معاہدے سے لاتعلقی کا اظہار ہی کردیں- اس میں ذاتی پسند ناپسند کو کم اور قومی مفادات سے لاتعلقی کو زیادہ دخل ہے-
یہی وجہ ہے کہ قریع کے بیانات کو سنجیدگی سے نہیں لیا جانا چاہیے- فلسطینی اتھارٹی کی بقاء بہرحال اسرائیل کی تابعداری میں ہے- حالیہ مہینوں میں فلسطینی اتھارٹی کی مذموم کارروائیوں میں اضافہ ہوا- فلسطینیوں کے گھروں، کاروبار، خیراتی اور تعلیمی اداروں پر حملے کیے گئے آج کی فلسطینی اتھارٹی اسرائیل کو اپنا دشمن نہیں سمجھتی، حماس کو سمجھتی ہے-
فلسطینی اتھارٹی کے راہنماء ان میں امریکہ پسندیدہ وزیر اعظم سلام فیاض اس خام خیالی کے حامی ہیں کہ اسرائیل کے ساتھ تعاون سے مغربی کنارہ صہیونی حکومت کو اس پر رضامند کردے گا کہ وہ مقبوضہ علاقے خالی کردے اور فلسطینی اتھارٹی کی سیکورٹی فورسز کو امن و امان سونپ دے- اس ناپختہ سوچ کی بدولت فلسطینی اتھارٹی فلسطینی جدوجہد کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ بن چکی ہے اور اسرائیلی نازی طرز کی حکومت کے خلاف جدوجہد پر اثر پڑا ہے-
اسرائیل نے فلسطینی اتھارٹی کو تابعدار ادارے کے سوا کچھ نہیں سمجھا- یہی وجہ ہے کہ دہشت گرد ریاست نے امریکہ اور چند عرب ریاستوں کو یہ اجازت دیے رکھی کہ رام اللہ میں قائم اتھارٹی کو اسلحہ فراہم کیا اسرائیل اس فلسطینی اتھارٹی کو اسلحہ فراہم کرنے کی اجازت دے سکتا ہے جس کے بارے میں اسے خدشہ ہو کہ اس کی گولیاں اسرائیل کے خلاف استعمال ہوں گی-
اس میں کوئی شبہہ نہیں ہے کہ اسرائیل نے دو ریاستی حل کو مؤثر طریقے پر ختم کردیا ہے- اس میں یہودیوں کے لیے خاص آبادیوں، شاہراہوں اور سہولیات نے خصوصی کردار ادا کیا ہے- ان زیادتیوں کو سمجھنے کے لیے صہیونی تاریخ کا ماہر ہونے کی ضرورت نہیں ہے- حقیقت یہ ہے کہ معاملہ دو ریاستی حل سے کہیں دور کا ہے-
ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان میں اسرائیلی فلسطینی اور دنیا بھر سے لوگ شامل ہیں کہ کوئی بھی یہودی حکومت آباد کاروں کی ان بڑی بڑی عمارتوں اور آبادیوں کو ختم نہ کرے گی جو جنوب میں ظاہریہ سے شمال میں جنین تک اور مغرب میں بیت المقدس سے مشرق میں اریحا تک پھیلی ہوئی ہیں-
ہم اس حقیقت سے بھی آگاہ ہیں کہ آئندہ کی فلسطینی ریاست کے مجوزہ دارالحکومت بیت المقدس کو یہودی آبادکاریوں کے درمیان ایک چھوٹی سے رہائشی بستی میں تبدیل کردیا گیا ہے- اردگرد کی یہودی آبادیوں میں معالے ادھم، یسگلت ریوو، ھارھوما افراطہ اور گتس ایتت زیون شامل ہیں-
کیا وجہ ہے کہ فلسطینی اتھارٹی کے لیڈر اپنی آنکھیں کھولنے کے لیے تیار نہیں ہیں- آخر وہ یہودی کیوں مدہوش ہیں کیا وہ اختیار و اقتدار کے نشے میں مدہوش ہو چکے ہیں- حقیقت یہ ہے کہ فلسطینی اتھارٹی اتنا حوصلہ نہیں رکھتی کہ اسرائیل کی خدمت کرسکے-
کیا امن سے محبت کرنے والی ریاست سینکڑوں آبادکاریاں قائم کرتی ہے، آخر فلسطینی اتھارٹی اسرائیل سے مذاکرات پر کیوں تلی ہوئی ہے- فلسطینی اتھارٹی حقائق کا ادراک کیوں نہیں کرتی، اگر فلسطینی اتھارٹی ادراک نہ کرے گی تو اسرائیل ان کی اینٹ سے اینٹ بجا دے گا-