شنبه 03/می/2025

سترہ سو پچاس گرفتار کر کے دو سو کی رہائی، اسرائیل کا بھونڈا مذاق

منگل 19-اگست-2008

فتح پارٹی اور فلسطینی اتھارٹی اسرائیلی جیلوں سے رہائی پانے والے ان دو سو فتح کے ارکان کی خوشی پھولے نہیں سمارہی، جنہیں حال ہی میں اسرائیل نے ’’جذبہ خیر سگالی‘‘ کے ایک معاہدے کے تحت رہا کیا-

فتح اسے اپنی بڑی کامیابی قرار دے رہی ہے جبکہ انسانی حقوق کے ادارے اور دیگر فلسطینی عوام فتح کے دو سو قیدیوں کی رہائی کو ’’اونٹ کے منہ میں زیرہ‘‘ قرار دے رہے ہیں- اسرائیل نے ایک جانب فتح کے دو سو قیدی رہا کیے تو دوسری جانب ساڑھے سترہ سو فلسطینیوں کو قیدی بنالیا- اسرائیل کی یہ دوغلی پالیسی فلسطینی عوام کے ساتھ مذاق اور انسانی حقوق کے اداروں کے منہ پر تمانچہ ہے-

فلسطین میں حقوق انسانی کے مرکز کی جانب سے جاری ایک رپورٹ کے مطابق رواں سال کے آٹھ ماہ کے دوران سترہ سو پچاس شہریوں کو پابند سلاسل کیا گیا- جولائی کے مہینے میں تین سو تیرہ فلسطینی گرفتار کرلیے گئے- یومیہ دس افراد کو تشدد کے بعد گرفتار کیا جاتا رہا- قیدیوں کی رہائی کا ایک مذاق گزشتہ برس اسرائیلی وزیر اعظم ایہود اولمرٹ اور فلسطینی صدر محمود عباس کے درمیان پانچ سو قیدیوں کی رہائی کی صورت میں بھی سامنے آیا تھا- یہ معاہدہ بھی اس اعتبار سے ایک مذاق ثابت ہوا کیونکہ اعلان کے باوجود اب تک بہت کم قیدیوں کو رہا کیا گیا ہے-

’’جذبہ خیر سگالی کا فریب‘‘

اسرائیل دو سو قیدیوں کی رہائی کو فلسطینی اتھارٹی اور صدر عباس کے ساتھ ’’جذبہ خیر سگالی‘‘ قرار دیا ہے- کیا یہ جذبہ خیر سگالی صرف ایک جماعت فرد واحد کے ساتھ نہیں؟- اگر اسرائیل فلسطینی قوم سے جذبہ خیر سگالی چاہتا ہے تو اسے اسلامی تحریک مزاحمت (حماس) اور دیگر جماعتوں کے گرفتار ارکان کو بھی رہا کرنا چاہیے-

دوسری جانب صدر عباس اور ان کے زیر انتظام فلسطینی اتھارٹی بھی اس نام نہاد ’’جذبہ خیر سگالی‘‘ پر بڑے خوش دکھائی دیتے ہیں- وہ اونٹ کے منہ میں زیرہ ڈالنے کے اسرائیلی فریب کو اپنی کامیابی قرار دیتے ہیں- اسرائیل کے ساتھ اعتماد سازی اور امن عمل میں پیش رفت کے حوالے سے اسرائیلی اقدامات پر اظہار مسرت احمقانہ اقدام ہی ہوسکتا ہے- اسرائیلی حکومت کی جانب سے یہ رپورٹ جاری کرنا کہ ’’جذبہ خیر سگالی‘‘ ’’باہمی اعتماد سازی‘‘ کے تحت رہائی پانے والوں میں حماس کا کوئی قیدی نہیں ہوگا-
 
اسرائیلی حکومت کی جانبدارانہ پالیسی کا واضح اشارہ ہے- صرف یہی نہیں بلکہ رہائی کے لیے مجوزہ فہرست میں فتح کے اسرائیل مخالف مروان پرغوثی جیسے اہم ارکان اور عہدیداران کو بھی شامل نہیں کیا جارہا-

نہایت دکھ کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اسرائیل خیر سگالی معاہدے کے تحت صرف ان قیدیوں کو رہا کررہا ہے جو پچیس پچیس برس اسرائیلی عقوبت خانوں میں زندگی گزار چکے ہیں- اولمرٹ کی جانب سے جن قیدیوں کو رہا کرنے کے احکامات جاری کیے گئے ہیں، ان میں سعید عتبہ نامی فلسطینی شہری بتیس سال اسرائیلی جیل میں گزار چکا ہے جبکہ خلیل ابو علی نے ستائیس برس تک سلاخوں کے پیچھے گزار دیے ہیں-

مختصر لنک:

کاپی