پنج شنبه 01/می/2025

اسرائیل، پرویز مشرف یاوری؟

پیر 18-اگست-2008

اسرائیل اور امریکا میں طاقتور یہودی لابی مبینہ طور پر جنرل پرویز مشرف کو مواخذے سے بچانے کے لئے پاکستان میں چار جماعتی حکمران اتحاد پر بالواسطہ طور پر مختلف سفارتی حلقوں کے ذریعے دباؤ ڈال رہی ہے کہ پرویز مشرف کا مواخذہ نہ کیا جائے۔

اگرچہ پاکستان کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے کے باعث دونوں ممالک کے درمیان کوئی براہ راست سفارتی رابطہ موجود نہیں تاہم اطلاعات کے مطابق امریکہ اور برطانیہ میں پاکستانی سفارتخانوں میں صدر مشرف کے مواخذے کے معاملے پر اسرائیل اور اسلام آباد کے اعلی افسروں کے درمیان متعدد ملاقاتیں دیکھنے میں آئی ہیں۔

ماضی کے ایک طاقتور صدر اور امریکا کی آنکھ کے تارے پرویز مشرف کو ان دنوں اپنی زندگی کے سب سے کڑے وقت کا سامنا ہے کہ جب ملک میں چار جماعتی سیاسی اتحاد انہیں ایوان صدر سے بے دخل کرنے کی خاطر خم ٹھوک کر میدان میں نکلا ہے اور ملکی دستور کے تحت ان کے خلاف مواخذے کی قرارداد تیار کر چکا ہے، جسے جلد ہی پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے گا۔ پاکستان کے دستور کے مطابق صدر کے خلاف مواخذے کی قرارداد کی منظوری کے لئے مجلس شوری (پارلیمنٹ) کے دونوں ایوانوں کے ارکان کی دو تہائی تعداد ضروری ہے۔

حکمران اتحاد کا دعوی ہے کہ ان کے پاس مطلوبہ تعداد سے بھی دس ووٹ زیادہ ہیں۔ مشرف کے ماضی کے اتحادیوں نے بھی دھمکی دی ہے کہ اگر انہوں نے صدارت سے استعفی نہیں دیا تو وہ مواخذے کی قرارداد کے حق میں ووٹ استعمال کر سکتے ہیں۔

پرویز مشرف کی امسال جنوری میں اسرائیل کے وزیر دفاع ایہود باراک سے پیرس میں ملاقات پر ملک میں بہت زیادہ شور اٹھا۔ بستر مرگ پر دو برسوں سے کومے میں پڑے سابق اسرائیلی وزیر اعظم ارئیل شیرون سے صدر پرویز مشرف کا اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سنہ 2005 میں اجلاس کے موقع پر مصافحہ بھی میڈیا میں زیر بحث رہا۔

صدر مشرف پہلے پاکستانی راہنما ہیں کہ جنہیں 2006 میں امریکا میں ورلڈ جیوش کانگریس سے خطاب کی دعوت دی گئی تھی۔ اس تاریخی پیش رفت کے بعد اس وقت کے وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری اور صہیونی وزیر خارجہ سلوان شالوم کے درمیان ترکی میں ہونے والی ملاقات خبروں کا موضوع بنی رہی۔

سنہ 2006 میں پرویز مشرف کی طرف سے فلسطینی ریاست کے قیام کے بعد اسرائیل کو تسلیم کرنے کے اعلان سے نہ صرف میڈیا بلکہ پاکستان کے طول و عرض میں عوامی سطح پر بھی شدید نفرت اور احتجاج دیکھنے میں آیا۔ یاد رہے کہ فلسطین پر اسرائیل کے غاصبانہ قبضے کی وجہ سے اسلام آباد اور تل ابیب کے سفارتی تعلقات نہیں ہیں۔

شمعون پیریز دوست

پاکستانی دفتر خارجہ کے اعلی عہدیداروں کا دعوی ہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم شمعون پیریز اپنے "دوست” پرویز مشرف کو موجودہ مشکل صورتحال سے نکالنے میں ذاتی دلچسپی لے رہے ہیں۔ اس مقصد کے لئے وہ برطانیہ اور امریکا میں اپنے "روابط کو استعمال” میں لا رہے ہیں۔

اطلاعات کے مطابق شمعون پیریز جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے لئے محفوظ راستہ چاہتے ہیں اور ان کے لئے بیرون ملک سیکیورٹی فراہم کرنے کی یقین دہانی بھی کرا چکے ہیں۔ ذرائع کے مطابق شمعون پیریز نے گزشتہ دنوں پرویز مشرف کو ٹیلی فون کر کے ہر ممکن مدد کا یقین دلایا تھا

پرویز مشرف کے ایک مقرب خاص کا دعوی ہے کہ وہ گزشتہ تین سال سے شمعون پیریز سے باقاعدگی کیساتھ ملاقات کرتے رہے ہیں۔ اس سلسلے کی پہلی ملاقات سنہ 2005 کو ڈیواس میں ہوئی جس کے بعد طرفین کے درمیان ٹیلی فون کالز اور خطوط کا تبادلہ تواتر سے جاری ہے۔

ذرائع کے مطابق شمعون پیریز نے پرویز مشرف کے نام پہلا خط 2007 میں تحریر کیا جسمیں اسرائیلی راہنما نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پرویز مشرف کے کردار کو سراہا تھا۔ اس کے جواب میں پرویز مشرف نے نیک تمناؤں اور تحسین پر اسرائیلی راہنما کا شکریہ ادا کیا۔

ذرائع کے مطابق ان خطوط کا تبادلہ ترک سفارتی چینلز کے ذریعے ہوا۔ پاکستان کے ایک معروف تجزیہ نگار حامد میر کا دعوی ہے کہ انہوں نے شمعون پیریز کا خط اور پرویز مشرف کا جواب دونوں خود اپنی انکھوں سے دیکھے ہیں۔

حامد میر نے کہا کہ شمعون پیریز کی یہ بات فراموش نہیں کی جا سکتی کہ وہ روزانہ صدر پرویز مشرف کی زندگی کی دعا کرتے ہیں کیونکہ انہوں (مشرف) نے پاکستان کی افغان پالیسی تبدیل کر کے اپنے موت کے پروانے پرخود دستخط کر دیئے تھے۔ اسرائیل اور ترکی کے درمیان دوستانہ قائم تعلقات ہیں، اس لئے انقرہ میں قیام کی صورت میں تل ابیب پرویز مشرف کی سیکورٹی کا ذمہ لے سکتا ہے۔ پرویز مشرف پاکستان سے باہر جانے کی صورت میں ترکی کے شہر استنبول میں حال ہی میں خریدے گئے اپنے عظیم الشان بنگلے میں قیام کریں گے۔

مڈل مین رابطے

حامد میر کا کہنا ہے کہ پرویز مشرف کے ذاتی دوست اور پاکستان کرکٹ کنٹرول بورڈ کے چئیرمین ڈاکٹر نسیم اشرف ان دنوں پرویز مشرف کی خاطر امریکا میں یہودی لابی کے ساتھ گہرے رابطوں میں ہیں۔ حال ہی میں ڈاکٹر نسیم اشرف نے ورلڈ جیوش کانگریس کے متعدد عہدیداروں سے ملاقات کی۔ پرویز مشرف، اپنے امریکا پلٹ اس دوست کا نام لیکران کی خدمات کا اعتراف کر چکے ہیں کہ جو نسیم اشرف نے سنہ 2006 میں ورلڈ جیوش کانگریس سے ان کے خطاب کا اہتمام کر کے سر انجام دی گئیں۔

حامد میر کا کہنا تھا کہ نسیم اشرف نے ذاتی طور پر مجھ سے ایک ملاقات کے دوران مجھے اس بات پر تیارکرنے کی کوشش کی کہ پاکستان اوراسرائیل کے سفارتی تعلقات کے حق میں عوامی سطح پر ایک مہم چلائی جائے۔ میر صاحب کے بقول نسیم اشرف سمجھتے ہیں کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات پاکستان کے حق میں ہیں۔ انہوں نے مجھے اسرائیل کا دورہ کرانے کا بھی وعدہ کیا تھا۔

نسیم اشرف ورلڈ جیوش کانگریس کے مقرب خاص بندے ہیں اور اپنی امریکی شہریت اور غیر منتخب حیثیت کے باوجود اب بھی پاکستان میں وزارتی عہدہ اور مراعات کے مزے لوٹ رہے ہیں۔ حامد میر نے دعوی کیا کہ پرویز مشرف نے دفتر خارجہ کو سنہ 2007 میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کے سلسلے میں ایک منصوبہ تیار کرنے کی ہدایت کی تھی تاہم مارچ سے ملک کے اندر شروع ہونے والی سیاسی بے یقینی کے باعث عملی جامہ نہ پہنایا جا سکا۔

مشرف کو اندازہ ہے کہ وہ اسرائیلی اور بھارتی اسٹبلشمنٹ کے علاوہ دنیا کے مخلتف ممالک میں اب بھی مقبول ہیں، پاکستان سے محفوظ راستہ ملنے کی صورت میں بین الاقوامی سفارتکاری میں انکے لئے اچھے مواقع موجود ہیں۔

مختصر لنک:

کاپی