ان ربیوں میں سے اکثریت کا یہ خیال ہے کہ غیر یہودی شکل و صورت کے لحاظ سے انسان ہی ہیں، حقیقی طور پر انسان نہیں ہیں- نسل پرستی اورنسلی بنیادوں پر تفریق پروان چڑھانے والی ان تعلیمات سے صرف نظر نہیں کیاجاسکتا، مغربی کنارے کی پہاڑیوں میں ایسے چلتے پھرتے نظر آتے ہیں کہ جو ان ’’تعلیمات‘‘ پر عمل درآمد کرنے کے لیے کسی عرب کو مارنے، شکار کرنے، حملہ کرنے یا ہلاک کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں-
مغربی کنارے میں تعینات اسرائیلی فوجی بھی ان تعلیمات سے براہ راست راہنمائی موصول کرتے ہیں،اس کا سہرا ربیوں کے سر ہے جن کے خیال کے مطابق اسرائیل کے فوجی تسلط کے اندر زندگی گزارنے والے 37 لاکھ فلسطینی، چوپائے ہیں کہ جوزمین پر چل پھر رہے ہیں- یہ ایسا ہی گویا کہ دوپاؤں والے جانور زمین پر چل رہے ہیں- یہی وجہ ہے کہ فلسطینیوں کے ساتھ یہودی آبادکار بدسلوکی کا رویہ روا رکھتے ہیں-گزشتہ برس، فرانس سے مہاجر ت اختیار کرکے اسرائیل آنے والے یہودی آبادکار نے ایک عرب ٹیکسی ڈرائیور کو تل ابیب میں اپنے ہی علاقے میں قتل کردیا- پولیس نے اس سے پوچھ گچھ کی تو اس نے بتایا کہ میں نے کسی انسان کو قتل نہیں کیا میں نے ایک جانور کو جاں بحق کیا ہے-
مرکز حراف ربیوں کانظریاتی اور مذہبی مرکز ہے اور اسے مذہبی لحاظ سے صہیونیوں کے اعصابی نظام کی حیثیت حاصل ہے، یہ مرکز ربی ابراہام جو اسرائیل کے پہلے ربی تھے کی یاد میں تعمیر کیاگیا ہے – یہ مرکز بنیادی طور پر مذہبی تعلیمات کا کالج ہے – اس ادارے میں طالب علموں کو یہ تعلیم دی جاتی ہے کہ پروردگار نے ساری کائنات کو یہودیوں کے لیے پیدا کیاہے نیز یہ کہ تمام غیریہودیوں کو غلام بن کر رہنا چاہیے اور انہیں ’’منتخب قوم‘‘ کی خدمات پر معمور ہوناچاہیے- مرکز حراف میں فلسطینیوں کو یہ تعلیم دی جاتی ہے کہ ان تمام غیر یہودیوں کو جوارض اسرائیل میں رہتے ہیں ان کو لکڑہارورں اور ماشکیوں کی طرح پانی بھرنا چاہیے یاانہیں اسی سرزمین سے جلا وطن کردینا چاہیے-
مرکز حراف سے تعلق رکھنے والے چند ربیوں کا اصرار ہے کہ فلسطینی ’’عمالیک‘‘ کی اولاد ہیں اور بائبل کے مطابق ان کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم کردینا چاہیے- نفرت پر مبنی ایسے خیالات مغربی کنارے میں رہنے والے ہزاروں یہودی آبادکاروں کے ہیں، یہ صہیونی یہودیوں کا مذہبی عقیدہ ہے، یہی تعلیم اسرائیل کے ہزاروں سکولوں (یشیوت) میں دی جاتی ہے- یہودی بادکاراور آبادکاریوں کی اکثریت پر مشتمل یہودی فوج ان عقائد پر عمل پیرا رہی ہے ان کی حیثیت ایسے شکاری کی ہے کہ جو ہر وقت اس تاک میں رہتاہے کہ شکار سامنے آئے اور وہ اسے ہلاک کردے –
ربی کک کا کہناہے کہ ’’ایک یہودی کی روح اور غیر یہودی کی روح میں اس سے بھی زیادہ فرق ہوتاہے جتنا کہ انسان اور جانور کی روح میں ہوتاہے ، اسرائیلی فلسفی تیزاک شاحاک کا کہناہے کہ کوک کی تعلیمات Lurianic Gbalaپر مبنی ہے جس کے مطابق کائنات کو یہودیوں کے لیے پیدا کیاگیاہے- 2003ء میں لیک وڈ نیوجرسی کے معروف یہودی مذہبی مدرسے بیت مدرسہ گووھا کے ربی سادیہ گراما نے ’’اسرائیل کی عظمت اور منتشر قوم کا مسئلہ ‘‘میں تحریر کیا کہ غیر یہودی ’’مکمل طور پر ناپاک اور بدی ہیں ‘‘اور یہودی ایک ممتاز اعلی قوم ہیں-
اس کتاب پر قدامت پرست یہودیوں اور اصلاح پسند یہودیوں نے تنقید کی اور اسے توریت کی تعلیمات سے متصادم قرار دیا- تاہم اسرائیل اور شمالی امریکہ کی اہم تنظیموں مثلاً A gudat Yisalfنے اس پر تنقید کرنے سے انکار کردیا- اسرائیل میں مرکز حراف سے تعلیم مکمل کرنے والے ایسے گریجویٹس ہیں جو اس تصور کو پھیلاتے ہیں کہ ’’دس احکامات‘‘ کا غیر یہودیوں سے کوئی تعلق نہیں ہے- اس لیے قتل، چوری اور جھوٹ کے احکامات کا غیر یہودیوں سے تعلق نہیں ہے –
یہودیوں کی ربانی کونسل کے چیئرمین ربی ڈوف لی اوز کا کہناہے کہ ’’جنگ کے دوران دشمن کے شہری نامی کوئی چیز نہیں ہوتی، ہماری توریت کا قانون یہ ہے کہ اپنے فوجیوں پر رحم کریں اور ان کو تحفظ فراہم کریں- عبرانی روزنامے معاریف نے 2004ء میں ان کا بیان شائع کیا کہ ’’ہمیں توریت کی تعلیمات کے مطابق صرف یہودیوں کی فکر کرنا چاہیے اور ہمیں دوسروں کی اخلاقیات کی پرواہ نہیں کرنا چاہیے- اس کا کہناہے کہ ایک ہزار ’’غیر یہودی، ایک یہودی کی انگلی کے برابر بھی نہیں ہیں-‘‘
لی کو صہیونیوں کی مذہبی تعلیمات میں نمایاں مقام حاصل ہے- مرکز حراف میں تعلیم دینے والے ربی مناہم فرومین سے جب میں نے سوال کیا کہ لی اوز کا یہودیوں کے ہاں کیامقام و مرتبہ ہے تو اس نے بتایا کہ اس شخص کو توریت کے انتہائی اہم علماء میں شمار کیاجاتاہے- اسی برس ربی ڈیوڈ بالستری نے اپنے پیرو کاروں کو بتایا کہ ’’ناپاک کو پاک کے ساتھ نہیں ملایا جاسکتا، وہ (عرب ) شیطان ہیں، گمراہ ہیں، عرب گدھے ہیں،ہمیں یہ سوال کرنا چاہیے کہ اللہ تعالی نے ان کی چار ٹانگیں کیوں نہ بنائیں-
ان کا ہمارے ہاں کوئی مقام نہیں ہے-مئی 2007ء میں اسرائیل کے سابق ربی ماردتی شے ال یاہو نے ایک فتوی جاری کیا تھاکہ میں اسرائیلی فوج کے لیے یہ فتوی جاری کروں گا کہ وہ سینکڑوں، ہزاروں فلسطینیوں کو ہلاک کردے، اس کا کہناہے کہ ’’اگر سو دمیوں کے ہلاک کرنے کے بعد وہ نہ مانیں تو ہمیں چاہیے کہ ایک ہزار کو ہلاک کردیں اور اگر ایک ہزار کی ہلاکت کے بعد بھی وہ باز نہ آئیں تو ہمیں دس ہزار ماردینے چاہئیں اور اگر دس ہزار مارنے کے بعد بھی وہ باز نہ آئیں تو ہمیں چاہیے کہ ایک لاکھ غیر یہودیوں کو مار دیں- دس لاکھ کو مار دیں، ہر وہ کام کریں کہ جس سے انہیں روکا جاسکے -‘‘
میرے خیال میں یہ انتہا پسند انہ خیالات حقیقی یہودیت کی عکاسی نہیں ہیں، وہ یہودیت کہ جو دس احکامات پر مبنی ہے یہودی روایات میں ایک مشرک کا تذکرہ ملتاہے کہ جو شمائی کے پاس آیا اور وہ اس شرمار مذہب کو قبول کرنے کے لیے تیار ہے کہ اسے توریت کی تمام تعلیمات اس طرح سکھا دی جائیں کہ وہ ایک ٹانگ پر کھڑا ہو – شمائی نے اسے اس چھڑی سے مار کر نکال دیا جو اس نے اپنے ہاتھ میں پکڑ رکھی تھی، پھر وہ خلل کے پاس گیا، حلل نے کہا’’جو چیز تمہیں اپنے لیے پسند نہیں ہے وہ اپنے ہمسائے کے لیے پسند نہ کرو،یہی توریت ہے یہی اس کی تشریح ہے –
مذہبی صہیونیت نے روایتی توریت کی جگہ ’’حطانیہ‘‘ کو دی ہے اس کا اصرار ہے کہ ’’انسان نے شخص‘‘ کا لفظ صرف اور صرف یہودیوں کے لیے خاص ہے – موجودہ یہودی، توریت کی وسیع تعلیمات کو فراموش کرکے صرف ان تعلیمات کو مد نظر رکھتے ہیں- جن سے غیر یہودیوں کے لیے راستہ ہموار ہو- مذہبی لیڈروں کو سمجھنا چاہیے کہ اس قسم کی تعلیمات سے دنیا کیا رخ اختیار کرے گی – اڈولف ہٹلر نے بھی یہودیوں اور غیر یہودیوں کے خلاف یورپ میں اقدامات کے لیے ایسے ہی الفاظ استعمال کئے تھے- خدا پر یقین رکھنے والے یہودی ربیوں کو اعلان کردینا چاہیے کہ غیر یہودیوں کو نقصان پہنچانا، یہودیت کی تعلیم نہیں ہے-