چهارشنبه 30/آوریل/2025

اسرائیل کے ایماء پر فلسطینیوں پر تشدد

بدھ 6-اگست-2008

امریکی سرپرستی میں چلنے والی فلسطینی اتھارٹی نے ان فلسطینی دانشوروں ،صحافیوں اور مذہبی رہنماؤں کے خلاف گرفتاری کی مہم شروع کردی ہے جو اتھارٹی کے موقف سے اختلاف رکھتے ہیں- خلافت عثمانیہ کے سقوط کی یاد منانے کے لیے اسلامی لبریشن پارٹی نے پر امن مظاہروں کا اعلان کیاتھا، عینی گواہوں کے مطابق سپاہیوں نے پلاسٹک کے ڈنڈوں سے شرکاء پر تشدد کیا-

بیت جالہ میں فلسطینی اتھارٹی کے اہل کاروں نے ان چار کیمرہ مینوں کو گرفتار کرلیا کہ جو پولیس گاڑیوں کی فلم بنا رہے تھے- الخلیل میں رائٹر کے کیمرہ مین یشری الجمال کو تشدد کا نشانہ بنایا گیااور اس کا کیمرہ توڑ دیا گیا، تشدد کے تازہ ترین واقعات قابض اسرائیلی فوجیوں کی آنکھوں کے سامنے رونما ہوئے- جن کی اجازت کے بغیر فلسطینی اتھارٹی کے اہلکار کوئی اقدام نہیں کرتے-
 
نابلس اور قریبی قصبوں اور دیہاتوں میں امریکی تربیت یافتہ سیکورٹی اہلکاروں نے نجی گھروں، میونسپل عمارتوں اور عوامی اداروں پر دھاوا بول دیا، منتخب میئر، عوامی نمائندے، کالج پروفیسر، طلبہ راہنما اور نمایاں علماء اس مہم کا حصہ بن چکے ہیں، گرفتارشدگان میں پروفیسر عبدالستار قاسم بھی شامل ہیں کہ جو معروف مصنف اور سیاسی شخصیت ہیں- فلسطینی اتھارٹی کی صدارت کے ایک سابق امیدوار کا حماس یا کسی دوسری سیاسی تنظیم سے تعلق نہیں ہے لیکن ا ن کی تحریریں، اتھارٹی کے لیے ناقابل برداشت ہوتی جارہی ہیں، جس کا دعوی ہے کہ وہ آزادی اور خود مختاری کے لیے فلسطینی خواہشات کے حقیقی نمائندہ ہیں-

جنوبی مغربی کنارے کے نزدیک الخلیل کے نزدیک دورہ میں فلسطینی اتھارٹی کی سیکورٹی فورسز نے الجزیرہ نیٹ کی عربی سروس کے نامہ نگار عوامن رجوب کو گرفتار کرلیا ، اس کے دفتر کی مکمل تلاشی لی گئی اور اس کے ذاتی کمپیوٹر کو بھی قبضے میں لے لیا گیا- الخلیل میں سیکورٹی محکمے کے صدر دفتر میں رجوب کو رکھاگیا ہے اس سے اس رپورٹ کے بارے میں تحقیق کی جا رہی ہے، جس میں اس نے فلسطینی اتھارٹی کی جیلوں اور حوالات میں قیدیوں کے ساتھ بدسلوکی کے بارے میں تفصیلات درج کی ہیں-

فلسطینی اتھارٹی کی سیکورٹی فورس نے چار دیگر افراد کو بھی گرفتار کرلیا ہے ان میں الخلیل سے تعلق رکھنے والے محمد حلاعلہ اور العلاع الطیطی، بیت لحم کے اوسید امار نے اور قلقیلیہ کے مصطفی صبری شامل ہیں- فلسطینی اتھارٹی کے ترجمان، دعویدار ہیں کہ یہ گرفتاریاں قانون کے مطابق کی گئی ہیں- تاہم یہ دعوی بے وزن ہے کیونکہ قانونی عمل داری، پولیس ریاست (ریاست کے بغیر) ممکن نہیں ہوتی جس کے اپنے وجود اور بقا کا دارو مدار اس پر ہے کہ جب تک اتھارٹی قابض اسرائیلی حکومت کے مفادات پورے کرتی رہے- اس کے حکم کو بجا لاتی رہے- اس کے مفادات کی حفاظت کی جاتی رہے گی-

یہ ایسے تکلیف دہ حقائق ہیں کہ جن سے ہر فلسطینی مرد و عورت اور بچہ  آگاہ ہے – اس لحاظ سے ایک ایسی قوم سے کسی خبر کاچھپانا مشکل ہے کہ جن کو غیر معمولی سیاسی شعور رکھنے والی قوموں میں شمار کیا جاسکتاہے- فلسطینی اتھارٹی کی جانب سے گرفتاریوں کی مہم ایک ایسے وقت میں شروع ہوئی ہے کہ جب مغربی کنارے میں اسرائیلی جرائم اور لسانی تطہیر کی مہم میں تیزی سے اضافہ ہورہاہے-
 
گزشتہ چند دنوں میں طاقت کے نشے میں مخمور قابض اسرائیلی فوجیوں نے دو فلسطینی بچوں کو بے دردی سے شہید کرڈالا، ان میں ایک دس سالہ بچہ بھی شامل ہے کہ جو ’’متنازعہ دیوار‘‘ کی تعمیر کے خلاف پر امن مظاہروں میں شریک تھا، اسرائیل کے چیف  ف سٹاف گابی اشک نازی نے اس ہفتے تسلیم کیا کہ متنازعہ دیوار کا راستہ حفاظتی ضروریات کو مدنظر رکھ نہیں بلکہ سیاسی وجوہات کی بناء پر متعین کیا گیاہے –

اس طرح اسرائیل نے عرب گھروں کو مسمار کرنے کا سلسلہ شروع کررکھاہے، ان میں مشرقی بیت المقدس بھی شامل ہے، نازیوں کے طور طریقوں کا اتباع کرنے والے یہودی  آبادکاروں کو یہ چھوٹ ملی ہوئی ہے کہ وہ جنوبی الخلیل کی پہاڑیوں میں رہنے والے عربوں سے ان کی اراضی چھین لیں کہ جو رام اللہ میں قائم فلسطینی اتھارٹی کی پالیسیوں پر تنقید کے مرتکب ہوئے ہیں-

صہیونیوں کی جانب سے لسانی تطہیر کا سلسلہ کچھ باقی رہتا ہے تو یہ کسر فلسطینی اتھارٹی پوری کردیتی ہے کہ جس نے فلسطینی قومی موقف سے انحراف کرنے والی فلسطینی اتھارٹی کے موقف سے اختلاف کرنے والوں کو گرفتار کرنا شروع کردیا ہے اور اس طرح فلسطینی اتھارٹی نے اپنے آپ کو مکمل طور پر امریکی صدر بش کی جھولی میں ڈال دیا ہے –

اس سارے معاملے کو سمجھنا مشکل ہے اس کی توجیہہ اس کے علاوہ کیا ہوسکتی ہے کہ فلسطینی اتھارٹی اسرائیلی تسلط کی ایک اور تہہ بنتی جا رہی ہے- ہم یہ سوال کرنے پر مجبور ہیں کہ فلسطینیوں کے خلاف فلسطینی اتھارٹی کی اس مہم کا مقصد کیا ہے؟ کیا اس سے فلسطینیوں کی اسرائیل کے خلاف آزادی کی جدوجہد کی صلاحیت میں اضافہ ہوتا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی فلسطینیوں ہی کی گرفتاریوں کی مرتکب ہو رہی ہے-

اس میں کوئی شبہہ نہیں ہے کہ فلسطینیوں کے خلاف کاروائی میں فلسطینی اتھارٹی ایک بوجھ بنتی جا رہی ہے کہ فلسطینی عوام کی آزادی کی جدوجہد اور انصاف کے حصول کے راستے میں رکاوٹ بن رہی ہے یہ امر کس قدر تکلیف دہ ہے کہ فلسطینیوں کو گرفتار کیا جاتا ہے اور وہ یہی اندازہ کرتے رہتے ہیں کہ ان کے بچوں کو اسرائیلی سیکورٹی فورس نے گرفتار کیا ہے یا فلسطینی اتھارٹی کی سیکورٹی فورس نے؟

یہ شرمناک بات ہے کہ فلسطینی اتھارٹی فلسطینیوں اور ان کی جدوجہد کے لیے اقتصادی ، سیاسی، سماجی اور معاشرتی تباہی کا سبب بنتی جا رہی ہے- فلسطینی ایک ایسی آزاد اتھارٹی کا خواب دیکھ رہے تھے کہ جو ان کے زخم مندمل کرتے اور  آج کے دور میں نازیوں کے خلاف ان کی جدوجہد میں قوت فراہم کرتے- انہوں نے کبھی ایسے غلام، مخبر، سازشی ٹولے کے بارے میں سوچا نہ تھاکہ جو انہیں گرفتار کرکے ان پر تشدد کرے-

یہاں تک کہ فلسطینیوں کو شہید کرے اور اپنے ’’مالکان‘‘ سے اس کارروائی پر داد تحسین قبول کرے اور واشنگٹن کی تھپکیوں کو اپنے لیے اعزاز سمجھے- ہمارے لیے اور ہمارے بچوں کے مستقبل کے تحفظ کے لیے یہ ضروری ہے کہ فلسطینی اتھارٹی کے سیکورٹی کے محکمے سے بدعنوان اہل کار موقعہ پرست ملازمین، غیر ملکی اداروں کے ایجنٹ اور فلسطینیوں سے ہمدردی نہ رکھنے والوں کو جلد ازجلد نکال باہر کیا جائے- فلسطینی اتھارٹی کی تحلیل اس لیے ضروری ہے تاکہ صہیونیوں کے خلاف یک جان ہو کر جدوجہد کی جاسکے-

مختصر لنک:

کاپی