فلسطینیوں پر جو کچھ بیت رہی ہے اور ذرائع ابلاغ جس سے نگاہیں چرا رہے ہیں‘ اس پر بھی بات چیت ہوتی-
حالیہ مہینوں میں باراک نے کوشش کی ہے کہ اسرائیل نواز گروپوں کے خدشات کم کرنے کے لیے ایسا موقف اختیار کریں ہے گویا کہ وہ اسرائیل سے گہری ہمدردی رکھنے والا شخص ہے اور اسرائیل کے بارے میں اس کا موقف اسرائیل حمایتی لابی ’’ایپک‘‘ سے ملتا جلتاہے – اس نے اپنے آپ کومعتدل موقف رکھنے والے لوگوں سے دور کیا کیونکہ اسرائیل نواز گروپوں کو یہ پسند نہ تھا- ری پبلکن پارٹی میں حریف سینیٹر جان مک کین کی طرح اوبامہ نے 2006ء میں لبنان پر اسرائیل کی بمباری کی حمایت کی‘ جس میں بارہ سو قیدی جاں بحق ہوئے تھے-
اس طرح غزہ کی پٹی کے محاصرے کو بھی وہ ’’دفا عی‘‘ قرار دیتاہے- فلسطین —-اسرائیل کے حالیہ دورے کے دوران اس کے ہر ہر قدم سے واضح ہوتاتھاکہ وہ اسرائیلی گروپوں کو خوش کررہاہے- امریکہ کا صدارتی انتخاب لڑنے والے اسرائیلی ہولو کاسٹ کی یادگار اور مغربی دیوار کابھی دورہ کرتے ہیں‘ اس نے اپنے دور کے دوران اسرائیلی یہودی (اسرائیلی عرب) لیڈروں سے ملاقات کی- اس نے صدیروٹ آبادی کا دورہ بھی کیا- جہاں گزشتہ ماہ تک غزہ کی پٹی سے میزائل پھینکے جاتے رہے ہیں-
ہر قدم پر اس نے اسرائیل کی حمایت کا اعلان کیا اور فلسطینیوں کی مذمت کی- باراک کے دورے کے دوران فلسطینیوں کو صرف یہ حصہ ملا کہ اس نے رام اللہ میں پینتالیس فٹ کادورہ اور فلسطینی معاون کا کہناہے کہ اوبامہ نے یقین دہانی کرائی کہ وہ ’’ قیام امن کے سلسلے میں ایک ٹھوس شریک‘‘ثابت ہوگا- کچھ لوگوں نے اس کے اس اعلان سے بھی سکون محسوس کیا کہ ’’جیسے ہی میں‘‘ نے صدرمملکت کا حلف اٹھایا اس سلسلے میں کام شروع کردوں گا-تاہم اوبامہ نے بیت المقدس کے مسئلے پر خاموشی اختیار کے رکھی- مریکہ اسرائیل پبلک افیئرز کمیٹی (اپیک) کے اجلاس سے گزشتہ ماہ خطاب کرتے ہوئے کہاتھاکہ ’’غیر تقسیم شدہ شہر‘ سرائیل کے کنٹرول میں رہے گا- عرب دنیا میں اس کے خلاف ردعمل ہوا تو اس نے اپنا بیان واپس لینے کی رضا مندی ظاہر کردی-
تاہم اوبامہ نے فلسطینی مہاجرین کے کیمپوں کا دورہ کرنے کا موقع گنوادیا‘ وہ فلسطینی سکولوں اور تجارتی دوکانوں کا بھی دورہ نہ کرسکے‘تاکہ اپنی نکھوں سے دیکھ سکیں کہ اسرائیلی فوج اور اسرائیلی آبادکاروں نے ان جگہوں کو کس طرح ملیا میٹ کردیا ہے- ’’نسلی امتیاز ‘‘نے فلسطین کی کیا حالت بنادی ہے‘ اوبامہ کوخوددیکھنا چاہیے تھاکہ قابض اسرائیلی فوج کے ہاتھوں امسال 500فلسطینی‘ جن میں 70بچے بھی شامل ہیں‘ہلاک کئے جا چکے ہیں‘ ہلاک ہونے والوں کی تعداد پچھلے برس ہلاک ہونے والوں سے زیادہ ہے جبکہ اسی دورانیے میں صرف 24اسرائیلی جاں بحق ہوئے-
مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں نت نئی آبادکاریوں کے بارے میں اوبامہ نے کوئی لفظ منہ سے نہ نکالا ‘ سابق امریکی صدر جمی کارٹر نے ہمت کرلی تھی کہ وہ جمہوری طور پر منتخب ہونے والے حماس کے راہنمائوں سے ملاقات کرلے‘ باراک نے یہ ہمت نہیں کی اگرچہ اسرائیل نے بھی حماس کے ساتھ جنگ بندی کی مفاہمت کرلی ہے – ایسے اقدامات سے واضح ہوتاہے کہ فلسطین کے مسئلے کے بار ے میں امریکہ میں ہونے والے بحث و مباحثہ کس قدر ’’توازن ‘‘ سے ہٹ چکاہے-
امریکی پالیسی میں آئندہ تبدیلی رہی ہے – اس کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا جیسے ہی انتخابی مہم ختم ہوتی ہے‘ ہمیں سیاسی دباؤ ختم نہیں ہوتا-ایک خدشہ یہ ہے کہ صدر اوبامہ یا صدر مک کین کلنٹن دور کی اپروچ ‘ کو دوبارہ اختیار کرلیں- وہ اپروچ امریکی وزارت خارجہ کے مشرق وسطی قیام امن شعبہ میں پچیس سالہ خدمات سرانجام دینے والے‘ رون ڈیوڈ ملر کے الفاظ میں ’’اسرائیل کی وکالت‘‘ ہے- اس کے نتیجے میں مغربی کنارے میں اسرائیلی آبادکاریاں دوگنی ہوگئیں- سال 2006ء میں ہونے والا کیمپ ڈیوڈ معاہدہ‘ ناکامی سے دوچار ہوا اور کلنٹن نے کوشش کی کہ یاسرعرفات Bantu ran کی ریاستی کیفیت کو تسلیم کرلے-
اوبامہ کے دور ے کا ایک مایوس کن پہلو یہ تھاکہ کلنٹن انتظامیہ کے دورمیں قیام امن مراحل کا ذمہ دار ڈینس ساس رہا ہے کہ جو اسرائیل نواز امریکی فکری ادارے‘ امریکہ اسرائیل پبلک افیئرز کمیٹی (ایپک )کا بانی ہے –
جوکوئی بھی منتخب ہوگا اس کو فلسطین —-اسرائیل میں تیزی سے بدلتی ہوئی صورت حال کا سامنا کرناپڑے گا- بیک وقت کئی کئی تبدیلیاں وقوع پذیر ہوتی ہیں- دو ریاستی حل کے بارے میں اتفاق رائے میں کمی آرہی ہے – کیونکہ اسرائیلی نو آبادیوں نے اس منزل کاحصول ناکام بنادیا ہے‘ علاوہ ازیں روایتی فلسطینی قیادت‘ نئی تحریکوں خصوصاً حماس کے سامنے دھندلا رہی ہے –
اسرائیل کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی وجہ سے مغربی ممالک اور عرب ممالک میں زیادہ آگاہی پیدا ہو رہی ہے- علاوہ ازیں فلسطینیوں کی جانب سے چلائی جانے والی بائیکاٹ‘ سرمایہ نکالنے اور پابندیاں لگانے کی مہم کو عالمی برادری اور سول سوسائٹی کی طرف سے حمایت مل رہی ہے-علاوہ ازیں فلسطین اور اسرائیل کے درمیان آبادی میں تبدیلی سے بھی کئی تبدیلیاں منظر عام پر آئیں گی- اگلے تین سے پانچ برسوں میں اسرائیل مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی میں فلسطینی اکثریت میں آ جائیں گے-
ان نئے حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے لیڈروں کو سوچنا ہوگاکہ وہ تنازعے میں شریک تمام اطراف کے نقطہ ء نظر کو سمجھیں اور دور یاستی حل کے علاوہ دیگر حلوں مثلاً شراکت اقتدار‘ کنفیڈریشن یا واحد جمہوری ریاست کے بارے میں سوچیں‘ ان نئے راستوں پر غور و فکر صرف اسی صورت میں ہوسکتی ہے کہ جب اسرائیلی بالادستی اور فلسطینی کمزوری کی موجودہ حالت کو بدلنے کی فکر کی جائے‘ جس کی وجہ سے ہر برس تشدد میں اضافہ ہورہاہے-