ترکی کی آئینی عدالت نے حکومتی جماعت جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی (اے کے) پر پابندی لگانے کے مطالبے کو مسترد کرتے ہوئے تنطٰیم کو جرمانے کی سزا سنائی ہے۔
عدالت کے چیف جسٹس ھاشم کیلیٹیچ نے کہا "کہ ہم جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پر پابندی نہیں لگا رہے تا ہم جماعت کی طرف سے ملک کی سیکولر اساس کو نقصان پہچنانے والے اقدامات کی پاداش میں جرمانے کی سزا سناتے ہیں۔”
عدالت کے گیارہ ججوں نے جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی (اے کے) پر پابندی کے حق میں فیصلہ دیا تھا، یہ تعداد حتمی فیصلے کے لئے درکار ججوں کی تعداد سے ایک کم تھی۔
عدالت نے فیصلہ کیا کہ پارٹی کو سرکار کی طرف سیاسی جماعتوں کو ملنے والی امداد میں سزا کے طور پر نصف کم کر دیا جائے۔ مالی سزا ان ججوں کی طرف سے تجویز کی گئی کہ جنہوں نے جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی پر پابندی لگانے کی اس بنا پر مخالفت کی تھی کہ تنظیم کے لادینت کے خلاف مبینہ اقدامات کی نوعیت اتنی شدید نہیں کہ اس کی وجہ سے پارٹی کی بساط مکمل طور پر لپیٹ دی جائے۔
یاد رہے کہ چیف پراسیکیوٹر نے پٹیشن دائر کی تھی جس میں الزام عائد کیا ہے کہ اے کے پارٹی سیکولرزم کے مخالفت ہے اور اس جماعت پر پابندی لگانے کی استدعا کی گئی تھی۔ اس پٹیشن میں یہ بھی استدعا کی گئی تھی کہ اس جماعت کے درجنوں ممبران بشمول وزیر اعظم اور صدر پر پابندی عائد کی جائے۔
اے کے جماعت کے خلاف کیس ایک سو باسٹھ صفحات پر مشتمل تھا اور چیف پراسیکیوٹر کے بقول ان میں ثبوت موجود تھے کہ اے کے جماعت کا "اسلامی” ایجنڈا ہے۔ اس پٹیشن میں زور دیا گیا تھا کہ حکومت کی طرف سے سکارف پہننے پر نرمی کی گئی تھی۔ واضح رہے کہ اے کے جماعت نے حال ہی میں آئین میں تبدیلی کی تھی جس میں سکارف پہننے میں نرمی کی گئی ہے۔
سیکولر قوتوں کا کہنا ہے کہ یہ حکومتی قدم اسلامی ریاست کی طرف پہلا قدم ہے۔ اے کے جماعت کا مؤقف ہے کہ یہ کیس جمہوریت پر حملہ ہے۔ اے کے جماعت نے پچھلے انتخابات میں سینتالیس فیصد ووٹ حاصل کیے تھے۔ زیادہ تر رائے عامہ کے جائزے سکارف پر لگی پابندی اٹھائے جانے کے حق میں ہیں۔
یہ قانونی جنگ ترکی کے سیاسی افق کو منجمد کرسکتی ہے اور اصلاحات کا عمل سست پڑ سکتا ہے۔ اور عین ممکن ہے کہ غیر ملکی سرمایہ کار اپنی سرمایہ کاری کو ترکی سے نکالنے کو ترجیح دیں۔ دوسری طرف یورپی یونین نے رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس فیصلے سے ترکی کی اتحاد میں شامل ہونے کی کوششوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔