نیز دہشت گرد گروپوں کے خلاف بھاری بھرکم فوجی کارروائیوں پر انحصار ختم کرکے پالیسیاں بنانے اور انٹیلی جنس کے ذریعے معلومات اکٹھی کرنے پر توجہ دی جائے – رینڈ کارپوریشن نے 29جولائی کو اپنی رپورٹ شائع کی ہے جس میں امریکی حکومت کو تجویز دی گئی ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کی اصطلاح ترک کردی جائے- رینڈ کارپوریشن کے تحقیقی مطالبے ’’دہشت گرد گروپ کس طرح ختم ہوسکتے ہیں‘القاعدہ کو ختم کرنے سے ملنے والے سبق‘‘میں یہ تجویز دی گئی ہے کہ واشنگٹن ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ ‘‘ کی اصطلاح کو ’’دہشت گردی مقابلہ‘‘ کا نام دیا جائے-
دہشت گردوں کو مجرم سمجھا جائے اور کہا جائے کہ مقدس جنگجو نہ کہا جائے- رینڈ کارپوریشن امریکی افواج کے لیے ریسرچ کے ادارے کی حیثیت سے خدمات سرانجام دیتارہاہے- رپورٹ میں کہاگیاہے کہ ہم دہشت گردوں کے خلاف جو سٹریٹجی اختیار کرتے ہیں‘ ان اصطلاحات کا صحیح پس منظر میں ہونا ضروری ہے کیونکہ اس کے بعد ہی آپ یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ کس قسم کی قوت کا استعمال کیا جائے- وائٹ ہاؤس کی ویب سائٹ پر صفحہ موجود ہے جس کا نام ہی ’’دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ‘‘ہے‘ رینڈ کی تحقیق کے مطابق تقریباً امریکہ کے تمام اتحادی مثلاً برطانیہ اور آسٹریلیا نے ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ کی اصطلاح کو استعمال کرنا چھوڑ دیا ہے-
برطانوی وزارت خارجہ نے دنیا بھر میں موجود اپنے سفیروں اور ترجمانوں سے کہا ہے کہ وہ اس متنارعہ ’’جملے‘‘ یا ’’عنوان ‘‘ کو استعمال کرنا بند کردیں تاکہ سیاق و سباق سے ہٹ کر اس کے کوئی دیگر مفاہیم مرتب نہ کئے جاسکیں اور اس سے نقصان ہوسکتاہے- مسلمانوں کی اکثریت کے نزدیک دہشت گردی کے خلاف ’’مٹھی بھر دہشت گردوں‘‘ کے خلاف جنگ نہیں ہے بلکہ دنیا بھر میں ان کے ایمان اور عقیدے کے خلاف جنگ کا نام ہے- ناقدین کا کہناہے کہ یہ ’’ملٹری‘‘ اصطلاح ہے اور اس میں دہشت گردی کی بنیادی وجوہات کو بیان نہیں کیاگیا- دوسروں کاکہناہے کہ عسکریت پسند جنگ کے مفاہیم سے آگاہ ہیں‘ ’’تہذیبی کشمکش سے بھی آگاہ ہیں‘‘ اور انہی کو بنیاد بنا کر رضا کار بھرتی کرتے ہیں-
رینڈ تحقیقاتی ادارے کی تحقیق میں اختتام پر بتایا گیاہے کہ امریکہ کی موجودہ پالیسی جس میں فوجی قوت کے دہشت گرد گروپوں کے خلاف زیادہ ’’استعمال‘‘ پر زور دیاگیاہے‘ ناکام ہوچکی ہے- تحقیقی رپورٹ کے مرتب اور سیاسیات کے ماہر سیٹھ جونز کا کہناہے کہ ’’امریکہ القاعدہ یا دیگر دہشت گرد گروہوں کے خلاف موثر طویل مدتی مہم اس وقت تک نہیں چلا سکتا جب تک امریکہ کو یہ علم نہ ہو کہ دہشت گردگروپوں کا خاتمہ کس طرح کیا جاتاہے- اس کی کئی مثالیں موجود ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف فوجی قوت کے استعمال سے کامیابی نہیں ہوئی ہے-
اس معروف تحقیقی ادارے رینڈ میں کام کرنے والے محققوں نے 648دہشت گرد گروپوں کا مطالعہ کیا کہ جو 1968اور 2006ء کے درمیان منظر عام پر آئے اور ان میں سے چند ایک ہی کو فوجی طریقوں سے شکست دی جاسکی- جن گروپوں کامطالعہ کیاگیا ان میں سے صرف 7فیصد کو فوجی کارروائیوں سے ختم کیا جاسکا- اس مطالعے میں بتایا گیاہے کہ دیگر دہشت گرد گروپ جس طرح ختم ہوئے‘ اس کی ایک اہم وجہ یہ تھی کہ ان کی اکثریت نے یا تو سیاسی مراحل میں شرکت کرلی یا ان کو پولیس اور انٹیلی جنس افسروں نے گرفتار کرلیا‘ یا ختم کردیا-
اقوام متحدہ کے فارن پالیسی رسالے نے نمایاں امریکی ماہرین اور سابق عہدیداران نے سروے کرکے یہ رپورٹ شائع کی ہے کہ واشنگٹن دہشت گردی کے خلاف جنگ ہار رہاہے- رینڈ نے متوازی حکمت عملی کی تجویز دی ہے اور وہ یہ ہے کہ دنیا بھر میں القاعدہ کے خلاف فوجی قوت کا استعمال نہیں بلکہ خفیہ ایجنسیوں کا استعمال کارآمد رہے گا- خفیہ ایجنسیوں کے استعمال کو 11ستمبر کے بعد کے مراحل میں کافی اہمیت دی گئی ہے-